جامعہ کراچی کی قائم مقام انتظامیہ کے ناقص سیکورٹی انتظامات،طلبا اذیت سے دوچار

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

جامعہ کراچی کی قائم مقام انتظامیہ کے ناقص سیکورٹی انتظامات نے طلبا کو اذیت سے دوچار کر دیا
جامعہ کراچی کی قائم مقام انتظامیہ کے ناقص سیکورٹی انتظامات نے طلبا کو اذیت سے دوچار کر دیا

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

کراچی:جامعہ کراچی کی انتظامیہ دہشت گردی کے واقعہ کے بعد بھی سیکورٹی کے خاطر خواہ انتظامات نہ کر سکی، ناقص منصوبہ بندی کی وجہ سے اساتذہ اور طلبہ گھنٹوں لمبی لائنوں میں لگ کر جامعہ میں داخل ہونے میں کامیاب ہوسکے۔

تفصیلات کے مطابق جامعہ کراچی میں پیش اآنے والے دہشت گردی کے واقعہ اور ڈیڑھ ہفتے کی تعطیلات کے باوجود من پسند تعینات ہونے والے غیر متعلقہ سیکورٹی ایڈوائزر کی ناقص حکمت عملی سامنے آئی ہے، جس کی وجہ سے پیر کو پہلے روز ہی طلبہ و طالبات کو جامعہ میں داخل ہونے کے لئے گھنٹوں انتظار کی اذیت سے گزرنا پڑا۔

جامعہ میں داخلے کے تینوں راستوں سلور جوبلی گیٹ، مسکن گیٹ، اسٹاف کالونی اور اسکاؤٹس کالونی گیٹ پر طلبہ اساتذہ کی گاڑیوں، بسوں اور موٹر سائیکلوں کی طویل قطاریں نظر آئیں، جس کی وجہ سے بیشتر طلبہ و طالبات بروقت کلاسز میں شریک نہیں ہو سکے۔

پیر کو جامعہ کراچی کے سلور جوبلی گیٹ پر کھڑے طلبہ کی قطار این ای ڈی کے سامنے تک موجود تھی،جب کہ مسکن گیٹ اور اسٹاف کالونی گیٹ اور اسکاؤنٹس کالونی گیٹ پر بھی لمبی قطاروں میں طلبہ کھڑے رہے،جن کے کارڈ چیک کرکے ان کو جامعہ میں داخل ہونے دیا جارہا تھا، اس دوران ناقص انتظامات اور مناسب حکمت عملی نہ ہونے کے باعث اساتذہ اور ملازمین تک کو بھی اسی کوفت سے گذرنا پڑا ہے۔

واضح رہے کہ جامعہ کراچی میں سیکورٹی اہلکاروں کی شدید کمی ہے جس کی وجہ سے جامعہ کراچی کی انتظامیہ نے تین برس قبل 59 سیکورٹی اہلکار بھرتی کیئے تھے، جس کے بعد نومبر 2021 میں نجی کمپنی کے ماہر سیکورٹی گارڈز کے لئے ایک ٹینڈر جاری کیا تھا جس میں دو کمپنیوں نے بولی دی، جس کے بعد پرچیز افسر ارشد حسین نے سیکورٹی ایڈوائزر ڈاکٹر معیز کو ٹیکنیکل ریویو کے لئے لکھا جس کے بعد ابھی تک پرچیز افسر کو جواب نہ ملنے پر مذکورہ کمپنیوں میں سے کسی کو بھی ہائر نہیں کیا جا سکا۔جس کی وجہ سے اب تک 60 سے زائد ماہر اسلحہ سے لیس سیکورٹی گارڈز کی بھرتی نہیں ہو سکی۔

جامعہ کراچی میں موجودہ سیکورٹی اہلکاروں میں کسی کے پاس بھی اسلحہ نہیں ہے، پرانا اسلحہ سیکورٹی آفس میں موجود ہے جس کا ریکارڈبھی اپ ڈیٹ نہیں ہے، یہ اسلحہ سابق وائس چانسلر ڈاکٹر وہاب کے دور میں سیکورٹی ذمہ داروں کو دیا گیا تھا، جو سیکورٹی اہلکار جامعہ کراچی میں تین برس قبل بھرتی کئے گئے تھے ان کو بھی اسلحہ کی معقول ٹریننگ نہیں ہے۔

جب کہ جامعہ کراچی کی انتظامیہ نے اساتذہ کو نوازنے کیلئے غیر قانونی طور پر ایک نئی اسامی تخلیق کرکے کیمپس سیکورٹی ایڈوائزر ررکھا ہوا ہے جب کہ اس سے قبل ڈاکٹر پیر زادہ قاسم کے آخری دور میں سینئر کیمپس سیکورٹی آفیسر کے طور پر ایک ریٹائرڈ میجر کو بھرتی کیا تھا جس کو تنگ کرکے نکالا گیا جس نے بعد جامعہ کراچی پر کیس بھی کردیا تھا۔

جامعہ کراچی کی انتظامیہ نے منگل کو دوپہرڈھائی بجے جامعہ کراچی کے آرٹس آڈیٹیوریم میں  سیکورٹی کے حوالے سے ایک اہم سیشن رکھا ہے جس میں  مہمان خصوصی ڈائریکٹر جنرل رینجرز کو رکھا ہے، جس کے لئے قائم مقام رجسٹرار ڈاکٹر مقصود انصاری نے 6مئی کو باقاعدہ نوٹی فکیشن نمبر PA/2022-1281/Cجاری کیا، جس میں تمام شعبہ جات کے چیئرمین / چیئرپرسن، ڈائریکٹر ز فیکلیٹیز کے ڈین اور انچارجز کوبلایا گیا ہے۔

معلوم رہے کہ جامعہ کراچی میں 1989میں جمنازیم کے قریب پی ایس ایف اور اے پی ایم ایس کے مابین ہونے والی لڑائی میں 3 طلبہ موت کے منہ میں  چلے گئے تھے،جس کے بعد جولائی 1989میں معین الدین کے دور میں رینجرز نے جامعہ کراچی میں قدم رکھے تھے، جس کے بعد 33برس سے رینجرز کی بھاری نفری بھی جامعہ میں موجود ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ جامعہ کراچی کی انتظامیہ کو چاہیئے کہ باصلاحیت سیکورٹی اہلکار تعینات کئے جائیں، سیکورٹی ایڈوائزر من پسند کے بجائے اہل افسر کو رکھا جائے، کیمروں کی فعالیت کو یقینی بنایا جائے، گیٹ پر واک تھرو گیٹ نصب کیے جائیں، کیوں کہ جامعہ کراچی کے اندر قائم آئی بی اے کی سیکورٹی بھی خود جامعہ کراچی کی سیکورٹی سے زیادہ اہم ہے۔

سابق اساتذہ و ماہرین کا کہنا ہے کہ 1999 میں سابق وائس چانسلر ظفر زیدی کے دور میں بھی طلبہ تنظیموں کے مابین لڑائی ہوئی تھی جس میں ایک طالب علم قتل ہو گیا تھا، جس کے بعد ظفر زیدی کے دور میں  طلبا کے لئے لازمی تھا کہ وہ اپنے اسٹوڈنٹ کارڈ لازمی سامنے رکھیں گے اور جامعہ میں معلومات، فارم لینے کے لئے آنے والوں سمیت دیگروزیٹرزدیگر اداروں کی طرح اپنا مخصوص کارڈ سامنے آویزاں کرکے جامعہ میں موجود رہیں گے اور واپسی پر مخصوص کارڈ گیٹ پر جمع کراکے اپنا شناختی کارڈ وصول کرکے جائیں  گے۔

دریں اثنا جامعہ کراچی کی جانب سے جاری کردہ اعلامیہ کے مطابق قائم مقام وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر ناصرہ خاتون نے داخلی دروازوں کا دورہ اور سیکیورٹی کا جائزہ لیا، جامعہ میں داخلے کے لئے طلبہ کو اسٹوڈنٹس کارڈ جبکہ ملازمین کو ایمپلائز کارڈ آویزاں کرنے کی ہدایات دیں  ، ڈاکٹر ناصرہ نے سیکیورٹی کے بہترین انتظامات پر اطمینان کا اظہارکرتے ہوئے کہا کہ طلباوطالبات اور جامعہ آنے والے دیگر افراد کوآسانی فراہم کرنے کی پوری کوشش کی جائے لیکن سیکیورٹی معاملات پر کسی قسم کی نرمی برتننے کی ہرگز اجازت نہیں دی جائے گی۔

مزید پڑھیں:جامعہ کراچی نے ریٹائرڈ اور مرحوم ملازمین کو بھی اعلیٰ گریڈ میں ترقی دے دی

قائم مقام وائس چانسلر نے کیمپس سیکیورٹی ایڈوائزر کو ہدایت جاری کرتے ہوئے کہا کہ کسی بھی ملازم کو ایمپلائز کارڈ جبکہ طلبہ کو اسٹوڈنٹس کارڈ ز کے بغیر کیمپس میں داخل ہونے کی ہرگزاجازت نہیں دی جائے۔جامعہ کراچی کے تمام ملازمین اور طلبہ کو ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ جامعہ کراچی میں داخلے کے وقت اپنے ایمپلائز اور اسٹوڈنٹس کارڈ آوایزاں کریں اور سیکیورٹی کے عملے کے ساتھ تعاون کو یقینی بنائیں۔

Related Posts