سیاسی معیشت

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

 آج کل کے دور میں پاکستان میں ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں سیاسی معیشت کی وجہ سے مہنگائی اور غربت میں اضافہ ہورہا ہے۔

غربت ختم کرنے کے دعویدار لوگ ہمیشہ اپنے مفادات کو دیکھتے ہیں ، چاہے وہ آئی ایم ایف ہویاپاکستان کے سیاستدان سب کا زور جی ڈی پی کی طرف ہوتا ہے اور لوگ چاہتے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ انڈسٹری میں کام کریں۔

پچھلے زمانوں میں جی ڈی پی گروتھ کا دارومدار زراعت کی ترقی پر ہوتا تھالیکن وقت کے ساتھ ساتھ زرعی ترقی میں کمی ہوتی گئی اور دنیا بھر کے لوگ انڈسٹریل گروتھ کی طرف راغب ہوگئے کیونکہ پاکستان کی طرح دنیا بھر میں 3 طبقات کے لوگ پائے جاتے ہیں۔ امیر، غریب اور درمیانہ طبقہ مگر سیاسی معیشت کے ماہر ہمیشہ امیر طبقے کو مدنظر رکھتے ہوئے پالیسیاں تیار کرتے ہیں۔

حکومتیں مشینوں پر زیادہ سرمایہ کاری کرتی ہیں بلکہ انسانوں کی تعلیم و تربیت پر کم توجہ دی جاتی ہے۔انسان کی زندگیوں کا حال بدسے بدتر ہوتا چلا گیا کیونکہ کسی بھی حکومت نے انسانیت کی طرف توجہ نہیں دی اور جدید مشینوں کی دنیا کی طرف دوڑتے چلے گئے۔

پاکستان بھی انہیں ممالک میں سے ایک ہے جن کی زرعی رقی روز بروز گررہی ہے اور لوگ دیہاتوں سے شہروں کی طرف یہ سوچ کر جاتے ہیں کہ ان کی زندگی بہتر ہوگی۔

یہ قصور گاؤں کے دیہات کے لوگوں کا نہیں بلکہ ہمارے سیاستدانوں کا ہے جو ہمارے کسانوںکو وہ مواقع اور آسائشیں ان کے گاؤں میں پہنچانے میں ناکام رہتے ہیں جس کی وجہ سے پسماندہ دیہاتوں سے لوگ شہریوں کا رخ کرلیتے ہیں۔

حکومت ایک طرف کہتی ہے کہ ہمارے پاس پیسوں کی کمی ہے اور دوسری جانب دنیا بھر سے قرض لے کر ان صنعتوں پر پیسہ لگایا جاتا ہے جن صنعتوں سے ماحولیاتی آلودگی بڑھنے کے ساتھ ساتھ مہنگے ایندھن کے علاوہ دیگر مسائل جنم لیتے ہیں۔

حکومتی سطح کے معاشی ماہرین معیشت کو بہتر کرسکتے ہیں اگر وہ سب سے پہلے اپنے ہی موجودہ وسائل کے اوپر کام کریں اور ایسی پالیسیاں بنائی جائیں جن سے عوام کو فائدہ ہوناکہ صرف چند مخصوص لوگ اس سے مستفید ہوں۔

عوام کو فائدہ ایسے ہوگا کہ جب گاؤں دیہاتوں میں پانی اور کھاد کی فراہمی ہواور ساتھ ساتھ کسان کی فصل کو خریدنے کیلئے حکومتی انتظام ہوجوکہ کسان سے مال لیکر عام منڈی تک پہنچائے۔اس طرح سے بہت سی کھانے پینے کی اشیاء کی قیمت مناسب سطح پر آجائے گی۔

اس سے ناصرف کسان کو فائدہ پہنچے گا بلکہ عام آدمی بھی مستفید ہوگا۔ آج کل کسان سے جو لوگ مال خریدتے ہیں وہ کسان کو بلیک میل کرکے بہت کم قیمتوں پر خریداری کرتے ہیں اور انہیں چیزوں کی ذخیرہ اندوزی کرکے اسی چیز کو کئی گنا زیادہ قیمت پر فروخت کرتے ہیں۔

آج کا کسان بینکوں کا قرضدار کم اور جاگیردارں اور وڈیروں کا زیادہ مقروض ہے اس کی وجہ سے مرکزی بینک کی ناقص کارکردگی ہے جو کہ اتنی طویل جدوجہد کے بعد کسی کسان کو پیسے دیتی ہے کہ اکثر کسان مایوس ہوکر یہ سمجھتا ہے کہ زمیندار سے سود پر قرض لینا آسان ہے ۔

آج جبکہ کسان پڑھا لکھا نہیں ہے حکومت کسان پورٹل بناکر کہتی ہے کہ اپنی شکایات یہاں بھیجیں جو اس پورٹل کے مطلب سے بھی ناواقف ہے وہ چاہتا ہے کہ جن نمائندوں کو الیکشن کے دوران ووٹ لینے بھیجا تھا آپ شکایات کے ازالے کیلئے بھی انہیں بھیجیں لیکن ہمارے منتخب نمائندے صرف الیکشن کے دوران ہی اپنے حلقوں میں جاتے ہیں۔

الکیشن کے بعد ووٹرز کو صرف ایک نمبر یا پورٹل دیدیا جاتا ہے جس پر کسان ہو یا عام انسان شکایات کرکرکے تھک جاتا ہے اور دوبارہ پانچ کا انتظار کرتا ہے تاکہ نمائندے واپس ان تک پہنچیں۔

سیاسی معیشت بنانے والے صرف امراء کی سہولت کیلئے پالیسیاں تشکیل دیتے ہیں، چاہے وہ صنعتکار ہویا بڑا زمیندارآج بھی انہیں کیلئے بنائی گئی پالیسیوں کی وجہ سے امیر امیرترہوتا جارہا ہے اور مہنگائی کی چادر صرف غریبوں پر ڈالی جارہی ہے جبکہ تک سیاسی معیشت بنتی رہے گی ناپاکستان سے نادنیا سے غریب ہوگی اور ہم سوئٹزرلینڈ میں بیٹھ کر ورلڈ اکنامک فورم پر بیٹھ کر صرف غربت اور غریبوں کی باتیں ہی کرتے رہیں گے۔

Related Posts