12سالہ بچی کے اغواء کا معاملہ،پولیس کی ملزمان کی مبینہ طور پر پشت پناہی

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

12سالہ بچی کے اغواء کا معاملہ،پولیس کی ملزمان کی مبینہ طور پر پشت پناہی
12سالہ بچی کے اغواء کا معاملہ،پولیس کی ملزمان کی مبینہ طور پر پشت پناہی

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

راولپنڈی:راولپنڈی تھانہ ائیرپورٹ کے علاقہ گلریز کالونی گیٹ نمبر 1 گلی نمبر 11 میں رہائش پذیر ظہیر انور مسیح اور اس کی بیوی نسرین پولیس کے رویے سے سخت نالاں ہیں 6مئی 2020 کو امجد نامی شخص جس کا تعلق جھنگ شہر سے ہے اس نے فاطمہ انور مسیح جس کی عمر بارہ سال ہے اس کو اغوا کرکے شادی رچالی ہے۔

نادرا ریکارڈ کے مطابق فاطمہ انور کی عمر بارہ سال ہے جبکہ تھانہ ایئرپورٹ چوکی انچارج اور دیگر پولیس افسران کے مطابق لڑکی کی عمر اٹھارہ سال ہے،تفصیلات کے مطابق فاطمہ اغواء شدہ بچی کے والدین کا کہنا ہے کہ پولیس اغوا کاروں اور سہولت کاروں کے ساتھ مبینہ طور پر مل چکی ہے۔

بچی کے والدین کا کہنا تھا کہ ہماری کہیں شنوائی نہیں ہو رہی ہے میری بیٹی 12سال کی ہے اور نابالغ ہے جبکہ آج مجھے ایک لیڈی کانسٹیبل کی طرف سے بتایا گیا کہ میری بیٹی نے نکاح کرلیا ہے اور بیان ریکارڈ کرادیا ہے، اس کا مجھے بالکل بھی علم نہیں تھا کہ اب میرے ساتھ یہ کچھ ہو جائے گا لیکن اب مجھے مکمل طور پر یقین ہو چکا ہے کہ پولیس ملزمان کی مبینہ طور پر پشت پناہی کر رہی ہے۔

اس سے قبل امجد نے اپنی بہن والدہ اور بھائیوں کے ہمراہ میری چاروں بیٹیوں کو اغوا کر چکا ہے اور بعد میں بذریعہ پولیس ہمیں ڈرا دھمکا کر ہمیں ہماری بیٹیاں واپس کیں،پولیس اور ملزمان نے بچیوں کو ڈرا دھمکا کر اپنی من مرضی کے بیان لیے تھے جبکہ آج دونوں بچیوں نے واضح طورپر لائیو انٹرویو میں کہا ہے کہ ان کو ڈرایا دھمکایا جاتا تھا اور اپنی مرضی کا بیان لیا گیا تھا۔

جبکہ دوران انٹرویو بچی فاطمہ کی والدہ روتی رہی اور اپنے آپ کو کوستی رہیں اور انصاف مانگتی رہیں، نسرین انور جو مغویہ بچی کی والدہ ہے اس کا کہنا ہے کہ میں وزیراعظم عمران خان، وزیر اعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار سے ہاتھ جوڑ کر اپیل کرتی ہوں کہ مجھے میری بیٹی بازیاب کرا کر میرے حوالے کی جائے۔

میری بیٹی نہ ملی تو میں اپنے پورے خاندان پر پٹرول چھڑک کر آگ لگا کر اپنے خاندان کا خاتمہ کر لوں گی، مجھے اب صرف میری بیٹی چاہیے اور ملزمان کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے جبکہ پولیس پولیس نے 24۔5۔ 2020 کو ایف آئی آر درج کرلی تھی لیکن اب پولیس کے بیان متضاد ہیں یہ چیز سمجھ سے بالاتر ہے اور کئی سوالات پولیس کی جانب جنم لے چکے ہیں۔

مزید پڑھیں:تفتیشی افسر نے مسیحی بچی کے اغواء کا کیس دبادیا، والدین کی انصاف کیلئے دہائیاں

Related Posts