وزیرِ اعظم کا کاروبار بند نہ کرنے کا اعلان اور پی ڈی ایم جلسوں میں اپوزیشن کا کردار

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

کورونا وائرس نے کاروبارِ زندگی مفلوج کرکے رکھ دیا ہے، وزیرِ اعظم عمران خان آج بھی کاروبار بند نہ کرنے کے حق میں نظر آتے ہیں تاہم وفاقی حکومت کے بقول پی ڈی ایم کورونا وائرس کے پھیلاؤ کا سبب بن رہی ہے۔

اپوزیشن رہنماؤں کے اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کا بنیادی مقصد وزیرِ اعظم عمران خان کی نظر میں تحریکِ انصاف کو اقتدار سے الگ کر کے ان کی کرسیاں خالی کروا کر خود ان پر براجمان ہونا ہے۔

موجودہ صورتحال یہ ہے کہ وزیرِ اعظم عمران خان تو کاروبار بند نہ کرنے کا اعلان کرچکے ہیں تاہم پی ڈی ایم بھی اپنے کورونا پھیلاؤ جلسے جاری رکھے ہوئے ہے، کیونکہ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ جلسوں میں کورونا ایس او پیز کا کوئی خیال نہیں رکھا جاتا۔

آئیے وزیرِ اعظم عمران خان اور اپوزیشن کے درمیان جاری اِس رسہ کشی کا جائزہ لیتے ہیں اور یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ خود کورونا وائرس کا شکار بلاول بھٹو زرداری، تاجروں کیلئے رعایات کا اعلان کرنے والی وفاقی حکومت اور خود تاجر حضرات کی خواہشات کیا ہیں اور کاروبار کو کورونا صورتحال میں جاری رکھنے کی کیا صورتیں ممکن ہوسکتی ہیں۔

کاروباری صورتحال پر ورلڈ اکنامک فورم سے وزیرِ اعظم کا خطاب

گزشتہ روز وزیرِ اعظم عمران خان نے ورلڈ اکنامک فورم سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کورونا وائرس سے پوری دنیا کی معیشت متاثر ہوئی۔ پاکستانی معیشت درست سمت کی جانب گامزن ہے۔ حکومت کا کام کورونا وباء کے ساتھ ساتھ عوام کو بھوک سے بچانا بھی ہے۔

وزیرِ اعظم عمران خان نے کہا کہ حکومت نے لاک ڈاؤن کے دوران مزدور طبقے کا خیال رکھا۔ ہم نے اسمارٹ لاک ڈاؤن کی پالیسی اپنائی۔ ہم نے غیر ضروری اجتماعات پر پابندی لگائی اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پاکستانی معیشت بہتر ہو رہی ہے۔

لا ک ڈاؤن کے نقصانات پر روشنی ڈالتے ہوئے وزیرِ اعظم عمران خان نے کہا کہ پاکستان مکمل لاک ڈاؤن کامتحمل نہیں ہوسکتا۔ حکومتی پالیسیوں کی بدولت ملک میں سرمایہ کاری کے رجحان میں اضافہ ہوا ہے۔ 

اسمارٹ لاک ڈاؤن اور تاجر برادری کا رویہ 

حال ہی میں سندھ میں حکومت نے اسمارٹ لاک ڈاؤن نافذ کرتے ہوئے کاروبار کو شام 6 بجے تک بند کرنے کا حکم صادر فرمایا جس کیلئے شہری انتظامیہ نے حکم نامے بھی جاری کیے۔

مثبت کی بجائے اِس حکم کا ردِ عمل زیادہ تر منفی رہا، زیادہ تر دکانداروں نے اِس پابندی پر عمل نہیں کیا اور خاص طور پر تاجر تنظیموں نے کھل کر کہا کہ ہم کورونا ایس او پیز کی پابندی تو کرسکتے ہیں لیکن ہمیں کاروبار رات 8 بجے تک جاری رکھنے کی اجازت دی جائے۔

نئی ایس او پیز کی خلاف ورزیوں پر ایکشن لیتے ہوئے حکومت نے ملک بھر میں خاص طور پر سندھ اور پنجاب میں سینکڑوں دکانیں، شادی ہالز اور شاپنگ مالز سیل کردئیے اور ہزاروں لاکھوں روپے کے جرمانے عائد کیے۔

تاجر برادری حکومت کے اِن اقدامات کی مخالف نظر آتی ہے اور نئی ایس او پیز کی پابندی ناممکن نہ سہی، مشکل ضرور ہے کیونکہ اس سے کاروباری آمدنی میں بہت کمی ہورہی ہے، خاص طور پر ایسے کاروبار اس سے زیادہ متاثر ہیں جو رات کے وقت کام شروع کرتے ہیں۔

مثال کے طور پر رات گئے تک کام کرنے والے کھانے اور چائے کے ہوٹلز، بار بی کیو اور شادی ہالز کا کاروبار نئی ایس او پیز کے باعث بری طرح متاثر ہوا ہے۔ 

پی ڈی ایم جلسے اور ایس او پیز کی خلاف ورزیاں

وفاقی حکومت تو ویسے ہی پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے جلسوں کی سخت مخالف ہے اور جب پی ڈی ایم نے گجرانوالہ، کراچی اور کوئٹہ سمیت ملک کے مختلف شہروں میں جلسے کیے اور عوام ہزاروں کی تعداد میں ایس او پیز کی دھجیاں اڑاتے نظر آئے تو حکومت کو لاک ڈاؤن کا بہانہ مل گیا۔

حکومت مخالف پی ڈی ایم جلسوں کا بیانیہ وزیرِ اعظم  عمران خان، پاک فوج اور دیگر اداروں کے خلاف بیانیے کے باعث عوام کی بھی تنقید کا نشانہ بنا اور وزیرِ اعظم عمران خان نے کھل کر کہا کہ اگر کورونا ایس او پیز کی خلاف ورزی پر ہمیں ملک بند کرنا پڑا تو اس کی ذمہ دار پی ڈی ایم ہوگی۔

کورونا میں مبتلا بلاول بھٹو زرداری اور بختاور کی منگنی 

چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے آج اپنے ٹوئٹر پیغام میں اعلان کیا کہ ان کا کورونا وائرس ٹیسٹ کا نتیجہ مثبت آیا ہے تاہم وہ اپنی سیاسی سرگرمیاں گھر سے جاری رکھیں گے۔

دوسری جانب سابق صدر آصف علی زرداری کی صاحبزادی اور بلاول کی ہمشیرہ بختاور بھٹو زرداری کی منگنی میں کورونا وائرس کیلئے ایس او پیز کا اتنی سختی سے خیال رکھا جارہا ہے کہ پی ڈی ایم جلسوں میں آنے والے عوام بھی اس پر حیرت زدہ نظر آتے ہیں۔

بختاور بھٹو زرداری کی منگنی میں آنے والوں کیلئے ضروری ہے کہ وہ کورونا وائرس ٹیسٹ منفی آنے کی رپورٹ اپنے ساتھ لائیں جبکہ آج بلاول بھٹو زرداری کے کورونا میں مبتلا ہونے کے بعد ان کی  اپنی ہی بہن کی منگنی میں شرکت مخدوش نظر آتی ہے۔ 

حکومت کی متضاد اور دوہری پالیسی 

پیپلز پارٹی کی دوہری پالیسی تو واضح ہو گئی کہ اگر گھر کی تقریب ہو تو ایس او پیز بے حد ضروری اور پی ڈی ایم جلسوں میں غیر ضروری قرار دے دی جاتی ہیں لیکن یہاں بڑا سوال یہ ہے کہ کیا حکومت خود کورونا ایس او پیز پر عملدرآمد میں سنجیدہ ہے؟

غور کیا جائے تو گلگت بلتستان انتخابی مہم کے دوران صرف پیپلز پارٹی نے ہی جلسے نہیں کیے بلکہ وفاقی وزیر علی امین گنڈا پور سمیت دیگر پی ٹی آئی رہنما بھی مہم کے دوران پیش پیش نظر آئے۔

 اگر ایس او پیز پر عمل درآمد اتنا ہی ضروری ہے تو حکومت کو بھی اس کا خیال رکھنا ہوگا اور اپوزیشن کو بھی چاہئے کہ بے جا جلسے جلوس ترک کرکے ویڈیو کانفرنسز اور ورچؤل جلسے جلوس کریں تاکہ عوام الناس کورونا وائرس کے ہاتھوں مزید جانیں گنوانے سے بچ سکیں۔