پاکستان کی آٹو انڈسٹری

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

پاکستان کو درپیش معاشی مشکلات نے جہاں بہت سے کاروباری اور صنعتی شعبوں پر بہت زیادہ دباؤ ڈالا ہے، وہاں ملک کی آٹو انڈسٹری بھی معاشی بد حالی کے آکٹوپس کے شکنجے میں آگئی ہے۔

آٹو سیکٹر کے حوالے سے تازہ اطلاعات مظہر ہیں کہ اس سیکٹر میں پیداوار اور فروخت میں نمایاں کمی آئی ہے، جس کو دیکھ کر مشکل لگ رہا ہے کہ یہ شعبہ سروائیو کرنے میں کامیاب ہوگا۔

 گاڑیوں کی قیمت میں بڑھتے ہوئے اضافے نے خریداروں کو اس گلی کا رخ کرنے سے خائف کر رکھا ہے، جس کا منفی اثر رفتہ رفتہ پوری انڈسٹری کو اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ  آٹو انڈسٹری کی فروخت میں زبردست کمی ریکارڈ کی گئی ہے، جس کی وجہ سے اس سیکٹر کا ہر دوسرا ذیلی شعبہ مشکلات کا سامنا کر رہا ہے۔ سب سے زیادہ متاثر کاروں کا کاروبار ہوا ہے جس میں 40 فیصد کی زبردست کمی دیکھی گئی ہے۔

ماہرین بتاتے ہیں کہ آٹو انڈسٹری کے اس زوال کا ایک اہم سبب پچھلے سال کے دوران آٹو مارکیٹ میں رائج کیے جانے والے کچھ غیر منصفانہ اقدامات ہیں، جس کا مجموعی منفی اثر پورے سیکٹر پر پڑا ہے۔

جاننے والے بتاتے ہیں کہ آٹو مارکیٹ کے حالات دراصل درآمدی پابندیوں اور شرح مبادلہ میں مسلسل بے یقینی کی صورتحال کے نتیجے میں خراب ہوئے ہیں اور انہی اسباب کی بنا پر ہی گاڑیوں کی قیمت میں ہوشربا اضافہ ہوا ہے۔

اس صورتحال سے پیدا ہونے والا بنیادی مسئلہ گاڑیوں کے اسمبلرز کی جانب سے پیداوار کو اس سطح تک مقامی بنانے میں ناکامی ہے کہ اسے ڈالراور روپے کی شرح تبادلہ کی کش مکش کے اثرات سے بچایا جائے، چنانچہ ڈالر کی قیمت بڑھنے کے ساتھ ہی گاڑیوں کی قیمت میں ہوشربا اضافہ ناگزیر بن جاتا ہے۔

اگرچہ چین، ملائیشیا اور جنوبی کوریا کی جانب سے نئے کار سازوں کی حوصلہ افزائی کرنا درست سمت میں ایک قدم ہے لیکن ان کی تیار کردہ گاڑیاں بھی تا حال پاکستانی صارفین کی دسترس اور قوت خرید سے باہر ہیں۔

آٹو انڈسٹری کے دیگر مسائل میں آٹو فنانسنگ پر سرکاری پابندیاں اور کریڈٹ لیٹر نہ کھولنا ہے، جس کے نتیجے میں پرزوں کی قلت پیدا ہوگئی ہے، چنانچہ مختلف اسمبلرز اپنی پیداوار روکنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ ان حالات میں آٹو انڈسٹری کو اپنی بقا کیلئے واضح طور پر سنجیدہ چیلنجوں کا سامنا ہے۔