پاکستان اب دنیا بھر میں کرپٹو کرنسی کی آٹھویں سب سے بڑی مارکیٹ کے طور پر ابھرا ہے جہاں شہریوں کے پاس مجموعی طور پر 25 ارب ڈالر سے زائد مالیت کے ڈیجیٹل اثاثے موجود ہیں جو پاکستان کے زرِ مبادلہ کے ذخائر سے بھی کہیں زیادہ ہیں۔
اگرچہ حکومت نے سال 2023 میں کرپٹو کرنسی کے لین دین پر پابندی عائد کردی تھی لیکن اس کے باوجود عوام کی دلچسپی کم نہ ہوئی اور لاکھوں پاکستانیوں نے اس میں سرمایہ کاری جاری رکھی۔
آج ملک میں دو کروڑ پچاس لاکھ سے زائد شہری بٹ کوائن اور دیگر ڈیجیٹل سکوں میں فعال طور پر سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔
اس غیر معمولی رجحان کی ایک بڑی وجہ مقامی کرنسی کی مسلسل گرتی ہوئی قدر اور مہنگائی کی بلند شرح ہے جس نے عام آدمی کو اپنی بچت کے تحفظ کے لیے متبادل ذرائع کی تلاش پر مجبور کیا۔ کرپٹو کرنسی بہت سے لوگوں کے لیے مہنگائی سے بچاؤ اور مالی تحفظ کا ذریعہ بن گئی ہے۔
جولائی 2025 میں حکومت نے ایک اہم پیش رفت کرتے ہوئے ’پاکستان ورچوئل اثاثہ جات ریگولیٹری اتھارٹی‘ کے قیام کا اعلان کیا، جو کرپٹو کے لین دین کو منظم کرنے کے لیے اصول و ضوابط مرتب کرے گی۔
اس اتھارٹی کے قیام کا مقصد عوام کو محفوظ ڈیجیٹل مالیاتی نظام فراہم کرنا اور اس شعبے میں غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام ہے۔
پاکستان نے دو ہزار میگاواٹ بجلی کو بٹ کوائن مائننگ اور مصنوعی ذہانت کے منصوبوں کے لیے مختص کرنے کا فیصلہ کیا ہے، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ ملک ڈیجیٹل معیشت کی عالمی دوڑ میں شامل ہونے کا خواہاں ہے اور اس کے ذریعے روزگار کے نئے مواقع پیدا کرنا چاہتا ہے۔
ماہرین کا ماننا ہے کہ اگر حکومت کرپٹو نظام کو صحیح طریقے سے منظم کرے، تو پاکستان ڈیجیٹل دنیا میں ایک بڑا کھلاڑی بن سکتا ہے۔ خاص طور پر نوجوان نسل تیزی سے بلاک چین، کرپٹو مائننگ اور مصنوعی ذہانت جیسے جدید شعبوں میں مہارت حاصل کر رہی ہے تاکہ مستقبل کی ڈیجیٹل صنعت میں اپنا کردار ادا کر سکے۔