یومِ تکبیر، 2 ہمسایوں کی ایٹمی قوت اور ممکنہ پاک بھارت جنگ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

یومِ تکبیر، 2 ہمسایوں کی ایٹمی قوت اور ممکنہ پاک بھارت جنگ
یومِ تکبیر، 2 ہمسایوں کی ایٹمی قوت اور ممکنہ پاک بھارت جنگ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

مملکتِ خداداد پاکستان سن 1947ء میں اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے معرضِ وجود میں آیا جس کے بعد اسے درپیش سب سے بڑا چیلنج خود اس کی سلامتی تھا کیونکہ ہمسایہ ملک بھارت کی آنکھوں میں کھٹکنے والا سب سے بڑا کانٹا پاکستان رہا جس کے خلاف نہ صرف محاذ آرائی جاری رہی بلکہ بھارت نے ہم پر جنگیں بھی مسلط کیں۔

سب سے یادگار جنگ سن 1965ء کی ہے جس میں بھارت کو منہ کی کھانی پڑی، تاہم سن 1971ء میں بھارت کی پاکستان کو دولخت کرنے کی سازش کے بعد مشرقی پاکستان بنگلہ دیش کے نام سے ایک الگ ملک بن گیا۔ اس اہم سانحے کے بعد بھی بھارت اپنی ریشہ دوانیوں سے باز نہ آیا اور سن 1974ء میں اس نے ایٹمی طاقت بننے کا اعلان کردیا۔

یہ تمام تر صورتحال دیکھتے ہوئے پاکستانی قیادت نے فیصلہ کیا کہ پاکستان کو بھی ایٹمی طاقت بننا ہوگا، ورنہ بھارت کے ہاتھوں ہماری قومی سلامتی ہمیشہ خطرے میں رہے گی۔ سن 1998ء میں بھارت نے پوکھران میں ایٹمی طاقت کا مظاہرہ کیا جس کے بعد وہ باضابطہ ایٹمی طاقت کہلانے لگا جس کے بعد پاکستان کو بھی ایٹمی طاقت کا مظاہرہ کرنا پڑا۔

پاکستان نے 28 مئی 1998ء کو دفاع کی مضبوطی کیلئے ایٹمی دھماکے کیے جبکہ آج اسی تاریخی موقعے کی یادگار کے طور پر پاکستانی قوم یومِ تکبیر منا رہی ہے۔ یہ وہ دن ہے جب پاکستان ایٹمی قوت بنا۔ آئیے اس اہم قومی دن کے موقعے پر پاکستان کی ایٹمی قوت کا جائزہ لیتے ہیں اور یہ بھی دیکھتے ہیں کہ ہمارا ایٹمی طاقت بننا کیوں ضروری تھا؟

پاکستان کا قیام اور فسادات

سن 1947ء میں جب بانئ پاکستان قائدِ اعظم محمد علی جناح کی ولولہ انگیز قیادت میں وطنِ عزیز کا قیام عمل میں لایا گیا، اسی وقت سے پاک اور بھارت کی لڑائی شروع ہو گئی، جو آج تک جاری ہے۔ہندوؤں اور سکھوں نے مل کر پاکستان جانے والے مسلمانوں کو ظلم اور بربریت کا نشانہ بنایا جن کا خون آج تک وطن کی مٹی کا متلاشی ہے۔

جیسے ہی برطانوی قیادت نے پاک بھارت تقسیم کا اعلان کیا، فسادات شروع ہوگئے جن میں مسلمانوں کو چن چن کر قتل کیا گیا، ان کی املاک کو اجاڑا گیا اور عزتوں کو تاراج کیا گیا۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق ہندو مسلم فسادات کے دوران قتل ہونے والے افراد کی تعداد 2 سے 20 لاکھ کے درمیان بنتی ہے۔ 

جنگ کی اصل وجہ دو قومی نظریہ

ہندو کہتے ہیں کہ برصغیر کو پورے کا پورا ہندوستان ہونا چاہئے جہاں صرف ہندو آباد ہوں گے۔ دیگر قومیں رہتی ہیں تو اقلیت میں رہیں اور اقلیتیں بھارت میں کس طرح رہ رہی ہیں یہ حالیہ دنوں میں پیش آنے والے مسلم کش فسادات، گجرات فسادات اور دہلی فسادات سے خوب واضح ہے جس کی تفصیل فی الحال ہمارا موضوع نہیں۔

دوسری جانب بابائے قوم قائدِ اعظم محمد علی جناح نے فرمایا کہ مسلمان ہر لحاظ سے ہندوؤں سے مختلف قوم ہیں۔ہمارے عقائد، مذہبی تقاریب، ثقافتی رجحانات اور لباس تک ایک دوسرے سے مختلف اور الگ ہیں۔ بھارت میں رہنے والا مسلمان اپنی پوری زندگی خود کو بھارتی شہری ثابت کرنے میں گزار دےگا۔

زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ صرف اپنے ہمسایہ ملک بھارت کے حالات پر نظر دوڑائیے اور مقبوضہ جموں و کشمیر کی صورتحال کاجائزہ لیجئے۔ 9 ماہ سے مظلوم کشمیری مسلسل کرفیو، کھانے پینے اور اشیائے ضروریہ کے ساتھ ساتھ زندگی بچانے والی ادویات اور طبی سہولیات سے بھی محروم ہیں۔ بھارت میں مسلمانوں کو چن چن کر قتل کیا جارہا ہے۔

ایسا لگتا ہے جیسے دو قومی نظریہ قائدِ اعظم نے آج پیش کیا تھا اور آج ہی تقسیمِ ہندوستان کا فرمان جاری ہوا ہے جس کے ردِ عمل میں ہندوتوا کے پیروکار اور توسیع پسندی کے پجاری مسلمانوں پر چڑھ دوڑے ہیں، حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ سن 1947ء میں قیامِ پاکستان کو 72 سال گزر چکے ہیں اور پھر بھی ہندو بنیا آنکھیں کھولنے پر راضی نہیں۔

توسیع پسندانہ عزائم اور ہمسایہ ممالک

بھارت صرف پاکستان کے لیے ہی نہیں بلکہ دیگر ممالک مثلاً بنگلہ دیش، نیپال اور چین کیلئے بھی دردِ سر بنا ہوا ہے۔ موجودہ نریندر مودی سرکار کے اقتدار میں آنے کے بعد سے بھارت کے ہمسایہ ممالک مسلسل پریشانی کا شکار ہیں۔ نیپال نے بھارت کو واضح طور پر کہہ دیا ہے کہ اگر بھارتی فوج نے جارحیت جاری رکھی تو ہم آپ کو نہیں چھوڑیں گے۔

دوسری جانب چین نے متنازعہ علاقے لداخ پر قبضہ کر لیا ہے جہاں بھارتی فوج نے بزدلی کی انتہائی گھٹیا مثال قائم کرکے ہر بھارتی شہری کا سر شرم سے جھکا دیا۔ قبضے کے بعد بھارتی فوجی لڑائی  یا مصالحت کی معقول کاوشوں کی بجائے احتجاج پر اتر آئے اور بینر ہاتھ میں لیے نظر آنے لگے جن کی تصاویر سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئیں۔

بھارتی فوج نے جو بینر اٹھائے ہوئے تھے، ان پر تحریر تھا کہ اے چینی فوجیو! جس جگہ آپ نے قبضہ کیا ہے، یہ بھارتی علاقہ ہے، چین کا حصہ نہیں ہے۔ مہربانی کریں اور یہاں سے چلے جائیں۔ کیا کسی ملک کی فوج ایسے بینر دیکھ کر بھارتی فوجیوں کی بزدلی پر ہنسے گی نہیں؟

لداخ کی صورتحال اور جنگ کے بادل

چین نے لداخ پر جو قبضہ کیا ہے اور چینی قیادت نے فوج کو جنگ کے لیے تیار رہنے کا جو حکم دیا ہے، ان دونوں معاملات کے بعد پاک بھارت جنگ بھی زیادہ دوری پر دکھائی نہیں دیتی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ چین پاکستان کا حلیف ملک ہے اور بھارت کی پشت پر امریکا موجود ہے جو اسے گاہے بگاہے جنگ پر اکساتا رہتا ہے۔

لداخ میں چینی فوج کی پیش رفت دراصل بھارتی سازشوں کاجواب ہے۔ بھارت لداخ میں آگے بڑھا جس کے جواب میں چین کو بھی متنازعہ علاقے پر اپنا حق جتانا پڑا۔ بھارت چاہتا تھا کسی طرح گلگت بلتستان میں داخل ہو کر سی پیک کو سبوتاژ کیا جائے جبکہ چین یہ ساری صورتحال دیکھ رہا تھا۔ وہ اپنے دفاع میں آگے آگیا۔

عالمی تجزیہ نگار چین اور بھارت کی جنگ پر مختلف قیاس آرائیاں کر رہے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اگر چین اور بھارت کی جنگ ہوتی ہے تو پاکستان کو لازمی اس میں کودنا پڑے گا۔ لداخ کشمیر سے متصل علاقہ ہے اور لداخ میں چین اور بھارت کی جنگ کے دوران اگر پاکستان خاموش رہا تو اس سے خود پاکستان کے وجود کو بہت بڑا خطرہ ہے۔

ممکنہ پاک بھارت جنگ اور ایٹمی طاقت کا موازنہ

دنیا بھر میں تقریباً13 ہزار 900 ایٹمی ہتھیار موجود ہیں جن میں سے امریکا اور روس کے پاس 93 فیصد ہیں جس سے دونوں ممالک کی طاقت کا اندازہ کیاجاسکتا ہے۔ اگر خدانخواستہ پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ ہوئی تو یہ عالمی جنگ میں بدلتے دیر نہیں لگے گی کیونکہ بھارت کو امریکا جنگ پر اکسا رہا ہے جبکہ روس بھی اسی خطے میں موجود ہے۔

روس یہ بات جانتا ہے کہ بھارت کو جنگ پر کون اکساتا ہے اور اگر پاک بھارت جنگ ہوئی تو اس کا خمیازہ روس کو بھی بھگتنا ہوگا، اس لیے وہ پہلے ہی درِپردہ پاکستان اور چین کے ساتھ مل کر جنگ کو روکنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ روس اور امریکا کے علاوہ باقی 7 ایٹمی طاقتوں کے پاس تقریباً 1ہزار 200 ایٹمی ہتھیار موجود ہیں۔

ایک تحقیق کے مطابق پاکستان اور بھارت میں تقریباً 150 ایٹمی وارہیڈز ہیں جو 2025ء تک 250 تک جا پہنچیں گے جن کا استعمال تو دور کی بات، جنگ کے دوران ان کی دھمکیاں دے دے کر مخالفین کو اتنا خوفزدہ کیاجاسکتا ہے کہ وہ جنگ کے نام سے بھی ڈرنے لگیں۔

امن پسندی ترجیحی حکمتِ عملی

امریکا، روس، پاکستان، بھارت اور چین سمیت دنیا کا ہر ملک یہ بات جانتا ہے کہ جنگ کسی کے حق میں نہیں۔ ایٹمی جنگ میں ہزاروں یا لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں لوگ مرتے ہیں جس سے ایسی جنگوں کی ہولناکی کا خوب اندازہ لگایاجاسکتا ہے۔

دنیا اب تک 2 عالمی جنگیں بھگت چکی ہے جبکہ جنگِ عظیم دوم میں 7 کروڑ سے زائد لوگ لقمۂ اجل بن گئے جس کے بعد اقوامِ متحدہ کا ادارہ قائم کیا گیا۔ اقوامِ متحدہ اور عالمی برادری کو چاہئے کہ امن پسندی کو ترجیحی حکمتِ عملی کے طورپر تمام ممالک پر نافذ کرے۔

Related Posts