شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی 100 سالہ زندگی سے بہتر ہے۔ٹیپو سلطان

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی 100 سالہ زندگی سے بہتر ہے۔ٹیپو سلطان
شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی 100 سالہ زندگی سے بہتر ہے۔ٹیپو سلطان

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

شیر کی ایک دن کی زندگی  گیدڑ کی 100 سالہ زندگی سے بہتر ہے جیسے سدابہار قول کے خالق ٹیپو سلطان کی شہادت کو آج 221 سال مکمل ہو چکے ہیں جبکہ 2 صدیوں سے زائد عرصے کے دوران دنیا میں عروج و زوال کی لاتعداد داستانیں رقم ہوئیں اور میسور سمیت اَن گنت سلطنتوں کا آج نام و نشان تک باقی نہیں۔

بے شک آج 221 سال گزرنے کے باعث وقت نے سلطنتِ میسور اور برصغیر سمیت کتنے ہی ممالک کے جغرافیے تبدیل کر ڈالے اور کتنے ہی ممالک بنے اور مٹے لیکن ٹیپو سلطان جیسے حریت پسند حکمران کی عظمت و ہیبت آج بھی انسان کو جھک کر سلام کرنے پر مجبور کردیتی ہے۔

ٹیپو سلطان کی ابتدائی زندگی

ٹیپو سلطان 20 نومبر 1750ء کو  جمعۃ المبارک کے روز سلطنتِ میسور کے سلطان حیدر علی کے گھر پیدا ہوئے جو خود بھی دنیائے اسلام کے نامور سپہ سالار اور عظیم مسلمان حکمران گزرے ہیں۔

بھارت کے شہر بنگلور میں دیوانہالی وہ مقام ہے جسے ہم ٹیپو سلطان کی جائے پیدائش قرار دے سکتے ہیں۔ یہ بنگلور سے 33 کلومیٹر دور واقع ہے۔ سلطان حیدر علی نے ٹیپو سلطان کی تعلیم اور فوجی تربیت پر بھرپور توجہ دی۔

سلطان حیدر علی نے بچپن سے ہی ٹیپو سلطان کو عسکری و سیاسی امور میں شامل کیے رکھا اور اہم امورِ مملکت میں ان سے صلاح مشورے بھی کیے، حتیٰ کہ 17 سال کی عمر تک پہنچنے پر ٹیپو سلطان کا تدبر بلوغت  کو جاپہنچا۔

حیدر علی کے شہزادے کے طور پر ٹیپو سلطان نے امورِ مملکت میں زبردست  دلچسپی دکھائی جسے دیکھتے ہوئے حیدر علی نے انہیں اہم عسکری و سفارتی امور کی نگرانی پر مامور کردیا۔ جلد ہی ٹیپو سلطان کو حیدر علی کا دستِ راست سمجھا جانے لگا۔ 

عادات و اطوار

ایک حکمران سے زیادہ ٹیپو سلطان کی زندگی کو ایک مردِ حق سے تعبیر کیا جاسکتا ہے جس نے مساوات، بھائی چارے اور مذہبی رواداری کے عالمی اصولوں کی بھرپور پاسداری کی۔

انصاف پسندی، حق گوئی اور بے باکی ٹیپو سلطان کے اہم اوصاف تھے۔  ہندو مت کے پیروکار بھی ان کی ریاست (مملکتِ خداداد) میں آزادانہ اپنے مذہبی فرائض کی ادائیگی کرسکتے تھے۔

ٹیپو سلطان کو ظلم و جبر اور تعصب سے سخت نفرت تھی۔ ہمیشہ باوضو رہتے، قرآنِ پاک کی تلاوت کرتے اور پنج وقتہ نمازوں کے ساتھ ساتھ نفلی عبادات کا بھی اہتمام کرتے۔

خلفائے راشدین کی سنت کے عین مطابق ٹیپو سلطان نے بادشاہ ہوتے ہوئے بھی اپنے جاہ و منصب پر کبھی غرور نہ کیا۔ زمین پر کھدر بچھا کر سوتے اور رعایا کے ساتھ مساویانہ سلوک کرتے۔

زبان دانی و علم دوستی 

عربی کے ساتھ ساتھ اردو، فارسی، انگریزی اور فرانسیسی زبانوں پر ٹیپو سلطان کو عبور حاصل تھا۔ زبانوں پر دسترس کے ساتھ ساتھ علمائے کرام کا ادب اور علم دوستی بھی ٹیپو سلطان کے اہم اوصاف سمجھے جاتے ہیں۔

ٹیپو سلطان نے ایک ذاتی کتب خانہ بھی قائم کیا جس میں 2 ہزار کے لگ بھگ کتابیں موجود تھیں۔ برصغیر میں راکٹ سازی کا موجد سمجھے جانے والے ٹیپو سلطان کو سائنسی علوم میں خاص دسترس حاصل تھی۔

جنگیں اور سلطان حیدر علی کا انتقال

سلطان حیدر علی اور انگریزوں کے درمیان 3 سال تک مسلسل شدید جنگیں رہیں جو 1767ء سے لے کر 1769ء تک جاری رہیں جن کے دوران ٹیپو سلطان نے زبردست سپہ سالار کا کردار ادا کیا۔

سن 1782ء میں سلطان حیدر علی کینسر کے باعث انتقال کر گئے جس کے بعد 26 دسمبر 1782ء کو ٹیپو سلطان کو تخت پر بٹھایا گیا۔ ٹیپو سلطان کی سلطنت 80 ہزار مربع میل جبکہ فوج 88 ہزار نفوس پر مشتمل تھی۔

انگریز سامراج اور برصغیر

ٹیپو سلطان یہ بات جانتے تھے کہ انگریز سامراج برصغیر کو دستِ نگر بنا کر مال و دولت لوٹنا چاہتا ہے۔ انہوں نے ہر ریاست کو دعوت دی کہ انگریزوں  کے خلاف میرے ساتھ اتحاد کرو، لیکن انگریزوں کا تقسیم کرو اور حکومت کرو کا اصول کام کرگیا اور ناعاقبت اندیش حکمرانوں نے ٹیپو سلطان سے اتحاد نہ کیا۔

اہم حکمرانوں کو انگریزوں نے یہ یقین دلایا کہ ٹیپو سلطان تم پر قبضہ کرکے اپنی سلطنت بڑھانا چاہتا ہے جس پر وہ ٹیپو سلطان کے خلاف ہو گئے۔ دوسری جانب ٹیپو سلطان کی بیرونِ ممالک سے امداد لینے کی کوششیں بھی کارگر نہ ہوسکیں۔

ٹیپو سلطان کا فیصلہ کن معرکہ 

ایسٹ انڈیا کمپنی کی طرف سے جنرل ہیرس 21 ہزار ، نظام حیدر آباد 16 ہزار اور جنرل اسٹورٹ 7 ہزار سپاہی لے کر میسور پر حملہ آور ہوئے۔ لارڈ ویزلی وہ گورنر جنرل تھا جس نے اس تمام حملے کی منصوبہ بندی کی۔

یہ سلطنتِ مغلیہ کا دورِ زوال تھا۔ متعدد ریاستیں خود اپنے دفاع میں مشغول تھیں جبکہ ٹیپو سلطان کے وزراء کو انگریز پہلے ہی اپنے حق میں کرچکے تھے۔ لارڈ ویزلی نے حملے کی تیاری مکمل کرنے کے بعد ٹیپو سلطان کو ایک خط لکھ دیا۔

خط کیا تھا، امن کی توہین آمیز شرائط کا پلندہ تھا جس پر ٹیپو سلطان نے فیصلہ کیا کہ وہ انگریزوں سے جنگ کو ترجیح دیں گے۔ دورانِ جنگ ایک طرف وفادار تھے اور دوسری طرف غدار اور دونوں ہی ٹیپو سلطان کے ساتھ تھے۔

میر صادق، میر قمر الدین، میر معین الدین، میر غلام علی لنگڑا اور دیوان پورنیا نامی غداروں نے انگریزوں کو سرنگا پٹم کے علاقے تک آسانی سے پہنچنے میں معاونت فراہم کی۔

یومِ شہادت 

ٹیپوسلطان مسجدِ اعلیٰ گئے جہاں انہوں نے فجر کی نماز ادا کی۔بعد ازاں  ٹیپو سلطان کے سیکریٹری نے انہیں انگریزوں سے ہاتھ ملانے کا مشورہ دیا جو انہوں نے قبول نہ کیا۔ انگریزوں نے جنرل بیرڈ کی قیادت میں سرنگا پٹم پر حملہ کردیا۔

غداروں کی مدد سے انگریز فوج قلعے میں داخل ہوچکی تھی۔ میر قاسم علی نامی غدار انگریزوں کی رہنمائی کر رہا تھا جبکہ ٹیپو سلطان کے وفادار سپاہی وطن پر قربان ہو رہے تھے۔

ٹیپو سلطان کو انگریزوں کے قلعے میں داخل ہونے کی اطلاع ہوئی تو وہ گھوڑے پر سوار ہو کر ان کا سامنا کرنے کے لیے چل پڑے۔ راستے میں میر صادق ملا تو ٹیپو سلطان نے کہا کہ تم اپنی بے وفائی کا مزہ جلد چکھ لو گے۔

میر صادق نے انگریزوں کو یہ بھی بتا دیا کہ ٹیپو سلطان کس طرف سے آرہے ہیں۔ بعد ازاں ٹیپو سلطان کے ایک سپاہی نے میر صادق کو قتل کردیا اور 4 روز تک اس کی لاش وہیں پڑی رہی۔

نمازِ مغرب تک ٹیپو سلطان، ان کی فوج اور رعایا انگریزوں اور اتحادی فوج سے لڑتے رہے۔ایک شخص نے ٹیپو سلطان کو مشورہ دیا کہ جاں بخشی کے لیے خود کو انگریزوں کے حوالے کردیں۔ وہ آپ کو کچھ نہیں کہیں گے۔

یہ سننا تھا کہ ٹیپو سلطان غصے سے آگ بگولہ ہو گئے۔ کہا: شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی 100 سالہ زندگی سے بہتر ہے۔ ٹیپو سلطان کے گھوڑے کو گولی لگنے کے باعث سلطان زمین پر جا گرے۔

گھوڑے کے بغیر بھی ٹیپو سلطان نے متعدد انگریز سپاہیوں اور فوجیوں کو جہنم واصل کیا۔ پیاس شدید ہو رہی تھی اور پانی پینے کا موقع نہیں مل رہا تھا۔ غلام راجہ خان نامی ایک غلام نے پانی مانگنے پر بھی ٹیپو سلطان کو پانی نہیں دیا۔

انگریزوں کو ٹیپو سلطان کی آمد کی اطلاع ملی  تو انہوں نے قلعے کی فصیل سے گولیوں کی بوچھاڑ کردی۔ ایک گولی سلطان کے سینے پر لگی جس سے خون میں لت پت ہو کر زمین پر گرے۔

اسی حالت میں ٹیپو سلطان نے متعدد انگریزوں کو ہلاک کردیا جس کے بعد  ایک سپاہی نے ٹیپو سلطان کی کنپٹی پر گولی ماری جس سے وہ شہید ہو گئے۔ راجہ خان نامی غدار نے انگریزوں کو ٹیپو سلطان کے جسدِ خاکی کی نشاندہی کی۔

شہادت کے وقت ٹیپو سلطان کی عمر 48 سال، 5 ماہ اور 14 دن تھی۔ٹیپو سلطان شہادت کے باوجود آج تک ہر مسلمان مجاہد کے سینے میں دل بن کر دھڑکتے ہیں۔ بے شک شیر کی 1 دن کی زندگی گیدڑ کی 100 سالہ زندگی سے بہتر ہے!

Related Posts