عرب امور پر نگاہ رکھنے والے تجزیہ کاروں نے امید ظاہر کی ہے کہ نو منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ عہدہ سنبھالنے کے بعد غزہ میں جنگ بند کروائیں گے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق اسرائیل کا مقصد 7 اکتوبر 2023 کی حماس کی مہم جوئی کے جواب میں حماس کی قوت ختم کرنا اور غزہ کی اینٹ سے اینٹ بجانا تھا، جو پورا ہوگیا، اب وائٹ ہاؤس کے نئے مہمان کو امن کا نجات دہندہ بنناہے۔
عرب امور کے ماہر علی ہلال کے مطابق جنگ بندی کا کریڈٹ دینے کے لیے اسرائیلی وزیر اعظم کو ٹرمپ کی آمد کا انتظار ہے تاکہ ان کے کہنے پر جنگ بند کر دی جائے، جس کیلئے امید کی جا رہی ہے کہ ایسی شرائط پیش کی جائیں گی جو حماس کیلئے بھی قابل قبول ہوں، تاکہ یرغمالیوں کی رہائی کی راہ بھی ہموار ہوسکے۔
تجزیہ کاروں نے یہ بھی دعویٰ کیا ہے کہ جنگ بندی کیلئے نئے امریکی صدر کی قیادت میں امریکا خلیجی ممالک سے اسرائیل کو تسلیم کرنے کی شرط بھی منوائے گا، جس کے بعد ہی جنگ بندی کا اعلان ہوگا۔
واضح رہے کہ اسرائیل کا وجود تسلیم کروانا ٹرمپ کی دیرینہ پالیسی ہے، جس کا آغاز مئی 2017ء میں ٹرمپ ہی نے ریاض میں عرب اسلامک سمٹ کے ذریعے کروایا تھا اور پھر معاہدہ ابراہیمی اور ڈیل آف دی سنچری جیسے منصوبے سامنے آئے تھے۔ بتایا جاتا ہے کہ او آئی سی کا حالیہ ریاض سمٹ اسی گیم کی پہلی سیڑھی ہے۔