جامعہ کراچی کا نادہندہ اُستاد بھی وائس چا نسلر بننے کی دوڑ میں شامل

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

جامعہ کراچی کا نادہندہ اُستاد بھی وائس چا نسلر بننے کی دوڑ میں شامل
جامعہ کراچی کا نادہندہ اُستاد بھی وائس چا نسلر بننے کی دوڑ میں شامل

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

کراچی: جامعہ کراچی کے وائس چانسلر کی تعیناتی کے لئے25مارچ کو سرچ کمیٹی قائم کر کے 7 اپریل کو دوہفتے بعد نوٹیفکیشن بھی جاری کردیا گیا،نوٹیفکیشن کے منظر عام پر آنے کے بعد سرچ کمیٹی کے ایک رکن ڈاکٹر پیر زادہ قاسم رضا صدیقی نے اپنے بھتیجے پروفیسر ڈاکٹر پیر زادہ جمال احمد صدیقی کا امیدوار ہونے اور ڈاکٹر طارق رفیع کے ماتحت کمیٹی میں ممبر بننے کی وجہ سے استعفیٰ دے دیا ہے، جب کہ ان کے بھتیجے پیر زادہ جمال احمد صدیقی جامعہ کراچی کے نادہندہ اور پاکستان کو بین الاقوامی پروگرام سے باہر کرانے میں ملوث بتائے جاتے ہیں۔

جامعہ کراچی میں  وائس چانسلر بننے کے امیدوار پروفیسر ڈاکٹر پیر زادہ جمال احمد صدیقی 20 جولائی 2019 کو جامعہ سے ریٹائرڈ ہو ئے تھے، جن کو جامعہ کراچی کی جانب سے پنشن کی ادائیگی کر دی گئی ہے، جبکہ ان کے دیگر فنڈز ابھی تک جاری نہیں کئے گئے ہیں۔پروفیسر ڈاکٹر پیرزادہ جمال احمد صدیقی نے سینٹر آف ایکسیلنس اِن میرین بیالوجی(CEMB)سے30ستمبر 1993سے 19جولائی 2019تک 119مختلف آلات اپنے نام جاری کرائے۔

پروفیسر ڈاکٹر پیرزادہ جمال احمد صدیقی نے اپنی سروس کے دوران سینٹر سے 10مختلف پروجیکٹ چلائے ہیں، جن کی مالیت 4 کروڑ روپے بنتی ہے، ان پروجیکٹ میں استعمال ہونے والے آلات حاصل کئے، ان میں سے کسی کی بھی اسٹور سے stock-entry نہیں کرائی گئی۔ آلات کی عدم واپسی کی صورت میں 29 جولائی 2020 کو سینٹر آف ایکسیلنس اِن میرین بیالوجی کے اسٹور سپر وائزر محمد نوید اقبال نے وائس چانسلر کو خط بھی لکھا تھا، وائس چانسلر آفس کی جانب سے اسٹور کی عدم کلیئرنس کے خط پر قائم مقام ڈائریکٹر ڈاکٹر منور رشید سے وضاحت طلب کی تھی۔

قائم مقام ڈائریکٹر CEMB ڈاکٹر منور رشید نے اسٹور انتظامیہ کی جانب سے پیر زادہ جمال صدیقی کو کلیئر نہ کرنے پر اسٹور سپر وائزر کے خلاف انکوائری کرنے کے لئے 14 ستمبر 2020 کو خط لکھا تھا، جس کے بعد سابق قائم مقام وائس چانسلر نے اسٹور سپر وائزر کے اس ایشو پر کمیٹی قائم کر دی تھی، 23 نومبر 2020 کو تین رکنی انکوائری کمیٹی پروفیسر ڈاکٹر نبیل اے زبیری، ڈاکٹر تنویر عباس اور ضیاء اللہ شیخ نے ڈائریکٹر CEMB کو لکھا کہ پروفیسر جمال صدیقی کے حاصل کردہ آلات کی تفصیلات پروجیکٹ کی معلومات اور دیگر اس حوالے سے معلومات 30 نومبر 2020 سے قبل مہیا کی جائیں۔ تاکہ پروفیسر جمال احمد صدیقی کی ریٹائرڈ منٹ سے قبل ان کو کلیئرنس دی جائے۔

اِس وقت کی قائم مقام وائس چانسلر پروفیسر ناصرہ خاتون نے بحیثیت قائم مقام ڈائریکٹر CEMB او ر پروفیسر ڈاکٹر جمال احمد صدیقی نے اجلاس منعقد کرایا تھا جس میں ڈاکٹر ناصرہ نے کہا کہ چیزیں ہر صورت میں واپس کرنا ہونگی،جس پر پروفیسر جمال احمد صدیقی نے کہا میں نے جو پروجیکٹ لئے وہ میری ملکیت تھے،جس پر ڈاکٹرہ ناصرہ نے کہا کہ آپ اپنے شاگردوں کو ہی بتاکر ان سے لسٹیں  تیار کرالیں، جس کے بعد ان کے تین شاگردوں ڈاکٹر غلام عباس، ڈاکٹر سیما شفیق اور ڈاکٹر زیب النساء سے ایک لسٹ تیار کرکے جمع کرائی گئی۔

 بعد ازاں 27 نومبر 2020 کو پروفیسر ناصرہ خاتون نے بحیثیت قائم مقام ڈائریکٹر CEMBایک لیٹرانکوائری کمیٹی کے کنونیئرپروفیسر ڈاکٹر نبیل احمد زبیری کو خط لکھا تھا جس میں اسٹور سپر وائزر کی تائید کرتے ہوئے کہا گیا کہ پروفیسر جمال احمد صدیقی نے اسٹور کو ان کی مہیا کردہ لسٹ کے مطابق آلات مشینیں وغیرہ واپس نہیں کی ہیں جو یونیورسٹی میں ریٹائرڈمنٹ سے قبل کلیئرنس کیلئے ضروری عمل ہے۔

7 جنوری 2021 کو انکوائری کمیٹی کی جانب سے وائس چانسلر کو رپورٹ جمع کرائی جس میں انکشاف کیا گیا کہ پروفیسر ڈاکٹر جمال احمد صدیقی نے 119 آئٹم اسٹور سے مختلف پروجیکٹس کے نام پر حاصل کئے،کمیٹی نے ان سے متعدد بار رابطہ کیا، خطوط لکھے مگر انہوں نے بالکل بھی رسپانس نہیں دیا، کمیٹی دے اپنی سفارشات میں ایسٹا کوڈ P.2158 کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا کہ پروفیسر ڈاکٹر جمال احمد صدیقی نے جتنے بھی آلات حاصل کئے تھے وہ اسٹور کو واپس نہیں دیئے اس لیئے ان کی کلیئرنس نہیں ہو سکتی اور وہ واپس لئے جائیں۔

جس کے بعد ڈائریکٹر CEMB نے 5 مارچ 2021 کو ایک نوٹ شیٹ جاری کی،جس میں انکوائری کمیٹی اور ڈاکٹر پروفیسر جمال صدیقی کی درخواست کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا کہ ان کو پنشن اور LPR اور PF جاری کئے جائیں،جس کے ساتھ انہوں نے پیر زادہ جمال صدیقی کی کلیئرنس کی ایک ایسی دستاویز جمع کرائی، جس کے مطابق پروفیسر جمال احمد صدیقی نے اسٹور سے لئے گئے آلات واپس جمع کرانے کے بجائے اپنی سابقہ طالبہ جو اب اسسٹنٹ پروفیسر ہیں، ان کے نام اور اس کے علاوہ منور رشید سمیت دیگر کو دینے کی ایک فہرست مہیا کی۔ اس فہرست میں ڈاکٹر غلام عباس، ڈاکٹر سیما شفیق اور ڈاکٹر زیب النساء کے دستخط بھی موجود ہیں۔جن میں سے 17مختلف آلات ڈاکٹر سیما شفیق،28 آلات زیب النساء برہان کے نام بھی جاری ہوئے ہیں۔

ذرائع کا دعویٰ ہے کہ ڈاکٹر پیرزادہ جمال احمد صدیقی کی جانب سے حاصل کردہ آلات میں سے بعض قیمتی آلات غائب ہونے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے،جب کہ بعض قیمتی آلات کو اسکریپ کا نام دے دیا گیا ہے، جن کی مالیت تقریبا 10 لاکھ روپے بنتی ہے،جس کی رپورٹ مذکورہ اسسٹنٹ پروفیسر نے خود ہی ایک لسٹ بنا کر ڈائریکٹر میرین بیالوجی کو جمع کرا دی تھی۔

دستاویزات کے مطابق پروفیسر ڈاکٹر پیرزادہ جمال احمد صدیقی نے 1 تا 4 مارچ 2015 کو پاکستان کانگریس آف زولوجی کا پروجیکٹ لیا تھا، جس کا سیکرٹری فنانس اپنا ہی خلاف ضابطہ بھرتی کردہ ڈاکٹر منور رشید کو بنوایا تھا، اس کانفرنس میں 40 لاکھ 68 ہزار 2 روپے ڈپارٹمنٹ کی تنخواہ کی مد سے اٹھا کر خرچ کر دیئے گئے تھے، جب کہ اس پروجیکٹ میں فنانس سیکرٹری منور رشید کے ذریعے خریداری بھی کی گئی جس میں اسٹور ڈپارٹمنٹ کو مکمل طور پر نظر انداز کیا گیا تھا، جس پر باقاعدہ گورنمنٹ آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی جانب سے اعتراضات اٹھائے گئے جن کو ابھی تک کلیئر نہیں کیا گیا۔

ڈاکٹرپروفیسر پیرزادہ جمال احمد صدیقی کے دور کی بھرتیوں پر آڈٹ اعتراضات:

پروفیسر ڈاکٹر پیرزادہ جمال احمد صدیقی نے میرین بیالوجی ڈپارٹمنٹ میں بطور ڈائریکٹر تعیناتی کے دوران غیر قانونی بھرتیاں بھی کی ہیں، جن میں سر فہرست ڈاکٹر منور رشید ہیں جن کے پاس کیمسٹری کی ڈگری ہے ان کو 26 جون 2010 میں ایسوسی ایٹ پروفیسر بھرتی کیا تھا، جب کہ انہوں نے بھرتی کے دو برس بعد 2012 میں جوائننگ دی تھی، جس کے بعد ان کی تقرری کو عدالت میں چیلنج کیا گیا ہے۔

پروفیسر ڈاکٹر پیرزادہ جمال احمد صدیقی کی جانب سے کی گئی دوسری بھرتی وقار عنایت کی ہے، جن کو بغیر اشتہار دیئے آفس اسسٹنٹ گریڈ 11 پر بھرتی کیا تھا، جس کے بعد غیر قانونی بھرتی منور رشید نے ڈائریکٹر تعینات ہونے کے بعد 21 جنوری 2012 کو وقار عنایت کو گریڈ 11 سے گریڈ 16 پر ترقی دے دی تھی، جس میں درجنوں ملازمین کی حق تلفی کی گئی تھی۔اس سے قبل انہوں نے 15 اکتوبر 2009 کو محمد ابراہیم بن گل محمد کو اسکیل 7 پر بطور ڈرائیور بھرتی کیا تھا۔

پروفیسر ڈاکٹر پیرزادہ جمال احمد صدیقی نے ریٹائرمنٹ کے بعد ہائر ایجوکیشن کمیشن میں ایک سال کے لئے HECکا Distinguished-National-Professor کے لئے درخواست جمع کرائی تھی، جس کے لئے 12 جنوری 2022 کو جامعہ کراچی کے سابق رجسٹرار ڈاکٹر عبدالوحید نے اُنہیں خط لکھ کر آگاہ کیا کہ قومی پروفیسر نامزد کنندہ برائے ایچ ای سی کی کمیٹی نے آپ کو غیر موضوع قرار دیا ہے۔جس کے بعد پیرزادہ جمال احمد صدیقی نے ڈاکٹر خالد محمود عراقی سے دوبارہ سفارش کی تھی تاہم ابھی تک اُن کی درخواست پر دوبارہ غور نہیں کیا گیا۔

ڈاکٹر نفیسہ شعیب بھی پروفیسر ڈاکٹر پیرزادہ جمال احمد صدیقی کی طالبہ تھیں، ان کو اسسٹنٹ پروفیسر بنا یا گیا، جب یہ ریٹائرڈ ہوئیں تو انہوں نے بھی کلیئرنس نہیں کرائی اور نہ ہی کسی پروجیکٹ کی انٹری اسٹور ڈپارٹمنٹ میں کرائی، جس کے باوجود ان کو واجبات ادا کر دیئے گئے ہیں۔اس کے علاوہ ڈاکٹر سیما شفیق اور ڈاکٹر زیب النسا برہان کو 12 فروری 2009 میں ایڈھاک لیکچرر بھرتی کیاگیا، جس کو 2 فروری 2010 میں دوبارہ کنٹریکٹ پر لیکچرر بھرتی کیا،جو پروفیسر ڈاکٹر پیرزادہ جمال احمد صدیقی کی شاگردات تھیں،ان کے نام بھی بعض قیمتی آلات منسوب کئے گئے ہیں جبکہ انہوں نے بھی کسی پروجیکٹ کی اسٹاک انٹری اسٹور ڈپارٹمنٹ سے نہیں کرائی ہے۔

پروفیسر ڈاکٹر پیرزادہ جمال احمد صدیقی tenure-track-systemپر تھے، جنہوں نے خود TENURED کا لیٹر جاری کر دیا تھا اور تنخواہ بھی اسی مد میں لیتے رہے ہیں، اس لیٹر کا آفس ریکارڈ بھی موجود نہیں ہے۔

پاکستان UKکے DFIDپروگرام سے بلیک لسٹ کیوں ہوا؟

لندن گورنمنٹ کے ماتحت ادارے شعبہ برائے بین الاقوامی ترقیات(DFID)کی جانب سے ڈیڑھ کروڑ روپے مالیت کا ایک پروجیکٹ پاکستان،بنگلہ دیش اور یوکے کے اشتراک سے شروع کیاگیا تھا، جس میں بنگلہ دیش سے اس کے کورآڈینیٹر ڈاکٹر معروف اور پاکستان سے ڈاکٹر پیر زادہ جمال احمد صدیقی تھے، اس پروگرام کے تحت کوسٹل پٹی پر لیب قائم کی جانی تھی جو نہیں کی گئی جس کی شکایت DFIDکو کی گئی، جس پر کمیٹی قائم ہوئی تھی۔

دستاویزات کے مطابق بنگلہ دیشی ڈاکٹر معروف کی جانب سے پیسے نہ ملنے کی شکایت برٹس کونسل ڈھاکہ کو کی گئی، برٹش کونسل ڈھاکہ نے DFIDسے وضاحت مانگی تو انہوں نے لکھا کہ معاہدے کے مطابق سارے پیسے پروگرام کے اکاؤنٹنٹ اور کورآرڈینیٹر پیر زادہ جمال صدیقی کو دیئے جاچکے ہیں، جس کے بعد DFIDکی جانب سے پاکستان برٹش کونسل کراچی کو آگاہ کیا گیا جہاں سے ایک انگریز اور دو پاکستانیوں پر مشتمل تین رکنی کمیٹی قائم کی گئی،جنہوں نے جامعہ کراچی کا دورہ کیا تھا۔

تین رکنی ا نکوائری کمیٹی میں شامل انگریز نے پیر زادہ جمال صدیقی سے سوال کیا تھا کہ کیا آپ نے اس رقم سے کوسٹل پٹی پر کوئی لیب قائم کی ہے۔؟ مسلسل تین بار یہ سوال کرنے کے باوجود کوئی جواب نہیں دیا گیا جس کے بعد DFIDنے پاکستان کو آئندہ کے لئے ایسے کسی بھی پروجیکٹ کے لئے بلیک لسٹ کر دیا ہے۔اس حوالے سے CEMBکے بانی ڈاکٹر حق نے بھی انتہائی دکھ کی کیفیت میں ڈاکٹر جاوید مستقیم سے اظہار کیا تھا کہ یہ بہت غلط کیا گیا ہے کیوں کہ بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی سبکی ہوئی ہے۔

ڈاکٹر پیر زادہ جمال صدیقی کی پی ایچ ڈی ڈگری کہاں سے ہے؟

پروفیسر ڈاکٹر جمال احمد صدیقی نے اسٹیٹ یونیورسٹی آف نیو یارک سے کوسٹل اوشنو گرافی میں پی ایچ ڈی کی ہے، جن کی ڈگری غیر تصدیق شدہ جامعہ کے ریکارڈ میں جمع ہے، جب کہ وہ میرین بیالوجی میں خدمات انجام دیتے رہے ہیں،اگرچہ اوشنو گرافی میرین بیالوجی کی ہی برانچ ہے تاہم ان کی ڈگری پرمضمون بھی درج نہیں  ہے، ہائر ایجوکیشن کمیشن کو پروفیسر ڈاکٹر جمال احمد صدیقی کی ارسال کردہ اسٹیٹ یونیورسٹی کی پی ایچ ڈی ڈگری کی تصدیق نہیں  ہو سکی ہے،جس میں  ہائر ایجوکیشن کمیشن کے مطابق صرف طالب علم کو ہی یہ یونیورسٹی ڈگری تصدیق کر کے دے سکتی ہے۔

اس حوالے سے پیر زادہ ڈاکٹر جمال احمد صدیقی سے رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ میری ڈگری اصل ہے، جس کی تصدیق شدہ کاپی ریکارڈ میں ہے، پیر زادہ جمال احمد صدیقی کا کہنا ہے کہ میں نے جو سامان لیا تھا وہ میں نے پروجیکٹس میں لگایا ہے اور باقی واپس کردیا ہے،ایسی باتوں میں کوئی صداقت نہیں ہے، مجھے کلیئرنس مل چکی ہے۔

Related Posts