حادثہ ایک دم نہیں ہوتا

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

یہ آج سے تقریباً ایک ماہ پہلے کی بات ہے۔ ہم دو لوگ شہرِ قائد میں اپنے اوقاتِ کار کے اختتام پر  ایک موٹر سائیکل پر سوار اپنے اپنے گھر کو جا رہے تھے کہ ہمیں ایک حادثہ پیش آگیا۔

موٹر سائیکل میرا کولیگ چلا رہا تھا۔ میں پیچھے بیٹھا تھا۔ میں نے صرف اتنا دیکھا کہ ایک موٹر سائیکل سوار نوجوان نے عقبی سمت سے ہمیں ٹکر ماری اور جس تیز رفتاری سے آیا تھا، اسی کے ساتھ آگے نکلتا چلا گیا۔

اتفاق سے میں نے نوجوان کا چہرہ دیکھ لیا تھا۔ میں یہ تو نہیں کہہ سکتا کہ جب اسے دوبارہ دیکھ لوں تو پہچان لوں گا، کیونکہ اِس بات کو کافی وقت گزر چکا ہے، تاہم اتنا ضرور کہہ سکتا ہوں کہ اُس نے جو کیا وہ نہیں کرنا چاہئے تھا۔

حادثہ غلطی سے ہوجائے تو آپ اسے انسانی فطرت کی بھول چوک سمجھ کر معاف کرسکتے ہیں لیکن حادثہ ہونے کے بعد جو شخص اس بات کا سبب بنا، وہ رُکے بغیر جائے حادثہ سے فرار ہوجائے تو آپ اسے کیا کہیں گے؟

خیر، یہ کوئی اتنا بڑا واقعہ نہیں تھا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہم دونوں کی جانیں محفوظ رکھیں۔ ہمیں کوئی فریکچر نہیں ہوا۔ میرے بائیں ہاتھ پر ایک بڑا زخم آیا جو اب بھر گیا ہے اور میں نہیں سمجھتا کہ اب یہ واقعہ یاد رکھنا اتنا ضروری ہے۔

ایک دوسرا حادثہ یاد آیا جو اب سے شاید دو ہفتے پہلے کی بات ہے۔ میری عادت ہے میں پبلک بس میں سوار ہو کر آنکھیں کھول کر زیادہ دیر نہیں بیٹھتا بلکہ اسے اپنا بستر سمجھ کر سونے کی باقاعدہ مشق شروع کردیتا ہوں۔

بس پر سونا اتنا آسان نہیں ہوتا، لیکن مجھ جیسے کچھ لوگ سو جاتے ہیں۔ ایسے لوگوں کا سفر طویل ہوتا ہے اور چونکہ وہ روز ایک ہی راستے سے آمدورفت کا تجربہ حاصل کرتے ہیں، لہٰذا باہر نظر ڈالنے میں زیادہ دلچسپی نہیں رہتی۔

جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے میں حسبِ معمول قائد آباد سے بس پکڑ کرنکلا۔ مجھے اپنے آفس جانا تھا۔ سفر آدھے سے زیادہ طے ہوچکا تھا کہ اچانک کورنگی کراسنگ کے قریب  ایک ہائی ایس کے ٹائر چرچرانے کی آواز سنائی دی۔

جب میری اس پر نظر پڑی تو میں سر سے لے کر پاؤں تک کانپ کر رہ گیا۔ ایک ہائی ایس اور موٹر سائیکل کا بہت برا تصادم ہوا تھا۔ ہائی ایس رُکنے کی بجائے موٹر سائیکل کو گھسیٹتی ہوئی  آگے کی طرف جا رہی تھی۔

ہماری بس سڑک کے ایک طرف تھی جبکہ حادثہ دوسری جانب پیش آیا تھا۔ ہائی ایس والا جس طرف جا رہا تھا وہ ہماری عقبی سمت تھی۔ میں نے دیکھا تو سڑک پر ایک شخص بے سدھ پڑا تھا جبکہ دوسرا تھوڑا بہت ہل جل رہا تھا۔ لوگوں کی ایک بھیڑ جمع ہو گئی تھی جو اسے سہارا دے رہی تھی۔ 

میں نے ہائی ایس کے ڈرائیور کا چہرہ دیکھا تو خوف و دہشت غم و غصے کی لہر میں تبدیل ہو گئی۔ حادثے کا ذمے دار شخص انتہائی بے حسی سے مسکرا رہا تھا۔ مجھے حادثے کی وجوہات کا علم نہیں تھا، تاہم اس دوران بس پر سوار دیگر مسافروں نے اس حادثے پر قیاس آرائیاں شروع کردیں۔

لوگوں نے حادثے کے بارے میں طرح طرح کے اندازے لگائے۔ کسی نے کہا ہوسکتا ہے ان دونوں میں کوئی ریس چل رہی ہو۔ لوگوں نے کہا کہ حادثے میں دو بچے بھی زخمی ہوئے ہیں، تاہم بدقسمتی سے میں وہ بچے نہیں دیکھ سکا اور بس آگے چل پڑی۔

اُردو زبان کے متمول شاعر میر تقی میرؔ نے کہا تھا: وقت کرتا ہے پرورش برسوں۔ حادثہ ایک دم نہیں ہوتا۔ جب میں نے یہ شعر پڑھا تو اُس وقت میں بچہ تھا۔مجھے اس کا مفہوم سمجھ میں نہیں آیا، لیکن آج سوچتا ہوں میرؔ نے غلط نہیں کہا تھا۔

کراچی ملک کا سب سے بڑا شہر ہے۔ یہاں ایک اندازے کے مطابق ڈھائی کروڑ سے زائد لوگ بستے ہیں۔ یہاں کے شہریوں کو ملک کا سب سے زیادہ ذمہ دار شہری ہونا چاہئے تھا، لیکن میں یہ دیکھ رہا ہوں اور مجھے افسوس ہو رہا ہے کہ ایسا نہیں ہے۔

حادثے ہوجایا کرتے ہیں۔ آپ سے ہوجائے تو اس کے نتائج کے لیے بھی تیار رہئے۔ خوف سے منہ چھپا کر حقیقت سے آنکھیں چرانے پر حقیقت بدل نہیں جائے گی۔ آج اگر آپ بھاگ کھڑے ہوں گے تو قیامت کے روز کیا کریں گے؟ایک بار ضرور سوچ لیجئے گا!

Related Posts