فساد کی جڑ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

اس میں تو کوئی دو رائے نہیں کہ ملک مستقل سیاسی بے یقینی کا شکار ہے۔ سوال بس یہ ہے کہ اس بے یقینی کی وجوہات کیا ہیں؟ اگر ہم غور کریں تو 2013ء میں قائم ہونے والی نواز حکومت نے نہ صرف ملک کو اس دور میں درپیش سنگین مسائل سے نکالا تھا بلکہ معیشت کو ایسی بلندی دینی شروع کردی تھی جس پر عالمی ادارے اسے تیز ترین ترقی کرنے والی معیشت قرار دے رہے تھے۔

یہاں تک کہ عالمی ادارے یہ پیشنگوئی بھی کرنے لگے کہ دس سال بعد پاکستانی معیشت کہاں کھڑی ہوگی۔ نواز حکومت نے ملک جن سنگین مسائل سے نکالا اس کی فہرست طویل ہے، مگر ہم اشارتاً محض تین مسائل کے ذکر پر اکتفا کریں گے۔ نواز شریف نے 2013ء میں اقتدار سنبھالا تو ملک میں وزیرستان سے باجوڑ تک پھیلے دہشت گردوں کی جانب سے ہی دہشت گردی کا بازار گرم نہ تھا بلکہ کراچی میں ایم کیوایم اور لیاری گینگ وار نے بھی شہریوں کا جینا حرام کر رکھا تھا۔

بم دھماکے اور ٹارگٹ کلنگ تقریباً روزانہ کا معمول تھا۔ دہشت گردی کے اس عفریت کو اس حکومت نے محض دو ڈھائی سال میں کچل ڈالا، اور ملک میں امن و امان قائم کردیا۔ اس حکومت کی دوسری بڑی کامیابی یہ تھی کہ جب اس نے اقتدار سنبھالا تو ملک میں 18 گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ چل رہی تھی۔ تین سال بعد یہ لوڈ شیڈنگ اس حکومت نے زیرو کردی تھی۔

تیسری بڑی کامیابی اس حکومت کی یہ رہی کہ سی این جی اسٹیشنز پر کئی کئی کلومیٹر طویل گاڑیوں کی قطاریں لگی ہوتیں اور شہری گھنٹوں اس قطار میں لگ کر سی این جی بھرواتے۔ تین سال بعد یہ قطاریں غائب ہوگئیں۔

مگر عین اس وقت جب نواز شریف حکومت یہ تمام مسائل حل کر رہی تھی، ایک اور قوت اس حکومت کو گرانے کی تگ و دو میں مشغول تھی۔ یہ قوت ہماری قومی تاریخ کی ایک با صلاحیت اور کامیاب ترین حکومت کی جڑیں کاٹنے کے لئے ہر حد تک گئی۔

پہلے اپنے پپٹ سے لانگ مارچ اور دھرنا کروایا گیا۔ یہ سکیم فیل ہوئی تو پاناما سکینڈل کا سہارا لے کر عدالت کے ذریعے انصاف کی دیوی کے منہ پر کالک مل دی گئی۔ بیانیہ کیا تھا؟ بس یہ کہ پچھلے 30 سال سے ایک جیسی شکلیں دیکھ کر ہم بور ہوگئے ہیں۔ ہم ایک نئی شکل دیکھنا چاہتے ہیں۔

کوئی کہتا کہ بھئی یہ حکومت شاندار کار کردگی دکھا رہی ہے۔ اس کی کار کردگی کی بنیاد پر معاشی امور پر نظر رکھنے والے عالمی ادارے دعویٰ کر رہے ہیں کہ پاکستان سب سے تیز رفتار ابھرتی معیشت ہے۔ مگر جواب ملتا، کچھ بھی ہو، ہمیں ان کی شکلیں پسند نہیں۔

گویا معاملہ “منے تیری موچھاں اچھی نا لگیں” والا ہی رہا۔ انہیں مزید سمجھایا گیا کہ بھئی جس شکل کو آپ لانے لگے ہیں وہ اس ملک کا بیڑہ غرق کردیں گے، اسے امورِ مملکت کا کوئی تجربہ نہیں۔ جواب ملتا، اس نے ورلڈ کپ جیتا ہے، لہذا وہ اچھا حکمران بھی ثابت ہوگا۔ خلاصہ یہ کہ وہ اپنی پسندیدہ شکل قوم پر مسلط کرنے میں کامیاب ہوگئے۔

نتیجہ یہ کہ جن مسائل سے نواز شریف نے ملک کو نکالا تھا وہی مسائل آج ایک بار پھر کھڑے ہوگئے ہیں۔ دہشت گرد ایک بار پھر سر اٹھارہے ہیں۔ اور آئے روز سیکیورٹی اہلکار ہی بڑی تعداد میں اس کا نشانہ بن رہے ہیں۔ کراچی میں ٹارگٹ کلنگ اور بم حملے تک شروع ہوچکے ہیں۔

ملک میں بجلی بنانے والے کارخانوں کی موجودگی کے باوجود لوڈ شیڈنگ ہو رہی ہے اور گھروں میں گیس کی بندش سے چولہے ٹھنڈے پڑے ہیں۔ مہنگائی کا یہ عالم ہے کہ جس خوردنی تیل کو نواز شریف 150 روپے فی کلو کی قیمت پر چھوڑ کر گیا تھا وہ اب 500 روپے کلو ہوچکا ہے۔ ڈالر ڈبل سنچری مار چکا ہے اور ملک دیوالیہ ہونے کے خطرے سے دوچار ہے۔

اپنے ہی لاڈلے نے آنکھیں دکھائیں تو مثبت رپورٹنگ کی فرمائشیں کرنے والے اس سے ناراض ہوکر “نیوٹرل” ہوگئے۔ نتیجہ یہ کہ بیساکھیوں کی مدد سے کھڑا نالائق ترین “نیا چہرہ” دھڑام سے زمیں بوس ہوگیا۔ ان کے محبوب کو پتہ ہے کہ وہ نیوٹرل نہ ہوتے تو حکومت نہ گرتی۔ چنانچہ ان کا اپنا ہی محبوب اب ہاتھ دھو کر ان کے پیچھے پڑ گیا ہے۔

اس محبوب کو لگام دینا کوئی مسئلہ نہیں۔وہ دس دن کی مار ہے۔ مگر پی ڈی ایم کو دو مسائل درپیش ہیں۔ آئینی اور قانونی طور پر ملک کے تمام محکمے خود کار طور پر اس بات کے پابند ہیں کہ جو بھی حکومت برسر اقتدار ہو اس کے احکامات کی تعمیل کرے۔ یہ اصول اس حد تک بدیہی ہے کہ کسی محکمے کے سربراہ کو اعلان کی بھی ضرورت نہیں ہوتی کہ ہم اب موجودہ حکومت کے احکامات پر چلیں گے۔

اپنی اپنی آئینی ذمہ داریاں اور حدود سب کو معلوم ہیں۔ سو تمام محکمے کسی اعلان کے بغیر ان احکامات کی تعمیل کرتے ہیں۔ مگر ایک محکمہ ایسا ہے جس کا واضح اعلان ضروری ہوتا ہے۔ کیونکہ اسی کی طرف سے آئین شکنی کی روایت چلی آرہی ہے۔ لگ ایسا رہا ہے کہ پی ڈی ایم حکومت کو خدشہ ہے کہ اگر اس نے مشکل فیصلے شروع کئے تو اس ایک محکمے سے قانونی تعمیل نہیں ملے گی۔

مثلا اگر ان کے سابق لاڈلے نے شہروں میں ہنگامہ آرائی شروع کی تو حکومت کو امن و امان کے قیام کیلئے بوقت ضرورت رینجرز کی مدد شاید نہ ملے۔ کیوں؟ کیونکہ وہ کہتے ہیں ہم نیوٹرل ہوچکے ہیں۔ گویا آئین کی ان دفعات پر عمل یقینی نہیں جن کے تحت نیوٹرل بھی اس بات کا پابند ہے کہ آئینی احکامات کی تعمیل کرے۔ اگر صورتحال واقعی یہی ہے تو پھر یہ اس لاڈلے کی سہولت کاری ہے جو اب ان کے گلے پڑ گیا ہے۔

پی ڈی ایم حکومت کو دوسرا مسئلہ یہ درپیش ہے کہ اطلاعات کے مطابق اپنے لاڈلے کے تابڑ توڑ حملوں کے بعد اب نیوٹرل جلد انتخابات کی فرمائش کر رہے ہیں۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق حکومت سے کہا جا رہا ہے کہ عوام پر پیٹرول بم سے حملہ کرکے نئے انتخابات کا اعلان کیجئے اور ایسا کرتے ہی آپ چلتے بنیں۔

ڈیموکریٹک موومنٹ سوچتی ہے کہ اگر جلد انتخابات کی فرمائش پوری کرنی ہے تو پھر ہم عوام پر پیٹرول بم پھینک کر ان کے مجرم کے طور پر انتخابات کی جانب کیوں جائیں؟ ہم تو پیٹرول کی قیمتیں اسی صورت بڑھائیں گے کہ پھر ڈیڑھ سال اقتدار میں رہ کر ملکی معیشت کو ہنگامی اقدامات کے نتیجے میں پٹڑی پر لے آئیں اور اس ڈیڑھ سالہ کار کردگی کے نتیجے میں ڈالر، پیٹرول اور اشیائے ضرورت کی قیمتیں نیچے لے آئیں۔

تب جب ہم عوام کے پاس ووٹ مانگنے جائیں تو ہماری ڈیڑھ سالہ کار کردگی نیوٹرل کے لاڈلے کی ساڑھے تین سالہ کارکردگی پر وہ فوقیت رکھتی ہوگی جس کے نتیجے میں عوام ووٹ دے گی۔ مگر لگ یوں رہا ہے کہ “نئے چہرے” کا چورن بیچنے والوں کو یہی منظور نہیں۔

اگر پی ڈی ایم کی ڈیڑھ سالہ کار کردگی بہتر نکلی تو پھر تو عوام پوچھے گی کہ ان “اہل” لوگوں کو عدالت سے ناہل قرار دلوا کر اپنے “نااہل” کے ہاتھوں ہمارا بیڑہ  کیوں غرق کروایا گیا ؟ سو قومی سطح پر تاثر یہی قائم ہورہا ہے کہ پی ڈی ایم حکومت سے آئی ایم ایف کی انہی شرائط پر عمل کروا کر انہیں گندا کروانے کی سکیم رو بعمل ہے، جو شرائط ان کے لاڈلے نے قبول کر رکھی ہیں۔

یعنی گند کا جو ٹوکرا ان کا لاڈلا چھوڑ کر گیا ہے اسے پی ڈی ایم اٹھائے۔ اور ظاہر ہے پی ڈی ایم یہ سیاسی خودکشی کسی قیمت پر بھی نہیں کرنا چاہے گی۔

عین اس مخمصے کے دوران ہفتے کے روز اچانک اینٹی کرپشن کے اہلکاروں نے پی ٹی آئی رہنما ڈاکٹر شیریں مزاری کو اغوا کرلیا۔ جب قانونی تقاضے پورے کئے بغیر قانون نافذ کرنے والا کوئی ادارہ بھی کسی اٹھائے تو اسے گرفتاری نہیں کہا جاسکتا۔

دراصل “گرفتاری” ایک قانونی عمل کا نام ہے۔ جب قانونی تقاضا پورا نہ ہو تو پھر یہ اغوا ہی ہے، چاہے سرکاری اہلکاروں کی جانب سے ہی کیوں نہ ہو۔ وفاقی اور پنجاب حکومت ہی نہیں بلکہ پوری پی ڈی ایم نے بلا تاخیر اس کارروائی سے اپنی لاتعلقی ظاہر کردی۔

گویا ڈاکٹر شیریں مزاری کے حوالے سے پی ڈی ایم کی وفاقی یا صوبائی حکومت نے کسی بھی قسم کے احکامات جاری ہی نہیں کئے تھے۔ ایسے میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر یہ احکامات کہاں سے آئے؟ ڈاکٹر شیریں مزاری کی صاحبزادی ایمان مزاری نے اس کا الزام سیدھا نیوٹرل پر ہی لگایا ہے۔

صرف ایمان مزاری ہی نہیں بلکہ پی ٹی آئی کے شہباز گل نے ٹویٹ کرکے حمزہ شہباز سے کہا ہے کہ ڈاکٹر شیریں مزاری کی رہائی آپ کے حکم سے نہیں بلکہ ان کے حکم سے ہوئی ہے جن کے حکم پر اٹھایا گیا تھا۔

مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ ڈاکٹر شیریں مزاری نے رہائی کے فوراً بعد جو گفتگو کی اس میں انہوں نے اپنے ساتھ پیش آنے والے واقعے کا ذمہ دار وزیر اعظم شہباز شریف اور وزیر داخلہ رانا ثناءاللہ کو قرار دیا۔ شاید انہیں علم ہی نہ تھا کہ حکومت اور خود پی ٹی آئی کا اس حوالے سے مؤقف کچھ اور ہے۔

لگ یوں رہا ہے کہ اس معاملے میں نیوٹرل سے اندازے کی بدترین غلطی سرزد ہوئی ہے۔ شاید سوچا یہ گیا تھا کہ بے یقینی کی شکار پی ڈی ایم حکومت ڈاکٹر شیریں مزاری کے اغوا کو نیوٹرل کی خوشنودی کیلئے  اپنا لے گی۔ مگر پی ڈی ایم حکومت نے یہ حماقت کرنے سے صاف انکار کردیا۔

یوں واضح ہوگیا ہے کہ نیوٹرل شدید کنفیوژن کا شکار ہیں۔ ایسے میں سوال یہ ہے کہ بے یقینی کی اس صورتحال کا حل کیا ہے؟ حل دو ہیں۔ پہلا یہ کہ پی ڈی ایم حکومت کوئی بھی مشکل فیصلہ کئے بغیر اقتدار کو لات مار کر باہر آجائے اور عوام کو حقائق سے آگاہ کردے۔

دوسرا حل یہ ہے کہ جس نے ملک کو اس مقام تک پہنچایا ہے وہ قبل از وقت ریٹائرمنٹ لے کر گھر جائے اور کسی ایسے شخص کو آنے دے جس کے دامن پر نہ تو کسی دھرنے کے داغ ہوں، نہ وہ پاناما اسکینڈل کا پس پردہ کردار رہا ہو، نہ اس پر آر ٹی ایس بٹھانے کی تہمت ہو، اور نہ ہی وہ “نئے چہرے” کا شوقین رہا ہو۔

کسی بے داغ کے آتے ہی صورتحال نارمل ہوجائے گی۔ کسی کو اچھا لگے یا برا مگر فساد کی جڑ متنازع لوگ ہیں۔

Related Posts