حکومت کی ناکامی کراچی میں جائیداد کی قیمتیں بڑھنے کی وجہ ہے،جوہر اقبال

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

Negligence of government is behind unprecedented hike in Karachi’s property prices

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

تعمیراتی صنعت کسی بھی ملک کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے، تعمیرات کے ساتھ دیگر صنعتیں منسلک ہوتی ہیں ماضی میں پاکستان میں تعمیراتی صنعت نے معیشت میں ہمیشہ کلیدی کردار ادا کیا ہےاور آگے بھی تعمیراتی سرگرمیوں کی بدولت معاشی ترقی میں اپنا بھرپور کردار ادا کرنے کیلئے کوشاں ہے۔

ایم ایم نیوز نے ملک میں جاری تعمیراتی سرگرمیوں اور تعمیراتی صنعت کو درپیش مسائل کا احاطہ کرنے کیلئے جوہر اسٹیٹ کے سی ای اواورایف پی سی سی آئی اسٹینڈنگ کمیٹی برائے رئیل اسٹیٹ کمیٹی کے ڈپٹی کنوینئر جوہر اقبال سے ایک خصوصی نشست کا اہتمام کیا جس کا احوال نذر قارئین ہے۔

ایم ایم نیوز: کالے دھن کو سفید کرنے کیلئے رئیل اسٹیٹ کی صنعت کو سب سے موزوں کیوں سمجھا جاتا ہے ؟

جوہر اقبال: پاکستان میں چیزوں کو منفی پیرائے میں پیش کرنا ایک المیہ بن چکا ہے، جہاں تک کالے دھن کو رئیل اسٹیٹ میں سفیدکرنے کی بات ہے تو یہ بات یاد رکھیں کہ پاکستان میں رئیل اسٹیٹ ہی وہ واحد شعبہ ہے جس کا مکمل ریکارڈ متعین ہوتا ہے۔ آپ کسی پوش علاقے میں زمین لیں یا کسی کچی بستی میں ،اس کے تمام کاغذات اور لین دین کے شواہد ریکارڈ کا حصہ بنائے جاتے ہیں ۔ ایسے میں کالے دھن کیلئے موزوں قرار دینا رئیل اسٹیٹ بزنس کے ساتھ زیادتی ہے۔

ایم ایم نیوز: رئیل اسٹیٹ بزنس میں کالے اور سفید دھن کا تعین کیسے ہوتا ہے ؟

جوہر اقبال: کالے اور سفید دھن کی اصطلاح استعمال کرنا تو بہت آسان ہے لیکن اس کا تعین کرنا اتناہی مشکل ہے۔ ایک خریدار بیرون ملک میں محنت مزدوری کرکے پاکستان میں زمین خریدتا ہے تو اس کی مارکیٹ ویلیو ایک کروڑ ہوتی ہے لیکن ایف بی آراور ڈی سی کے کاغذوں میں وہ 10 سے 20 لاکھ ہوتی ہے اور یہاں سفید دھن بھی کالا ہوجاتا ہے تو یہ بلڈرز یا ڈیولپرز نہیں بلکہ حکومت کی ناکامی ہے کیونکہ مارکیٹ ویلیو کے مطابق جب تک زمین کی خریدوفروخت نہیں ہوگی تب تک یہ مسئلہ حل نہیں ہوگا۔

ایم ایم نیوز: حکومت نے دیگر شعبہ جات کو نظر انداز کرکے تعمیراتی صنعت کو ہی ایمنسٹی کیوں دی ؟

جوہر اقبال: آج اپنی چھت ہر انسان کی بنیادی ضرورت اورخواہش ہے ،وفاقی حکومت نے کسی کو نظر انداز نہیں کیا بلکہ تعمیراتی صنعت کو ایمنسٹی دینے کی وجہ یہ تھی کہ تعمیرات کی صنعت ملک میں روزگاراور کاروبار کے بڑے مواقع پیدا کرتی ہے۔

تعمیراتی صنعت کے ساتھ درجنوں صنعتیں چلتی ہیں۔ سیمنٹ، سریا اور دیگر سازومان کی فیکٹریاں اور صنعتیں چلتی ہیں جبکہ لاکھوں افراد کو روزگار ملتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت تعمیراتی صنعت کو مراعات دیکر ملک میں کاروبار اور روزگار کو فروغ دینا چاہتی ہے۔

ایم ایم نیوز: کیا سندھ میں بھی دیگر صوبوں کی طرح تعمیراتی سرگرمیاں جاری ہیں ؟

جوہر اقبال: دبئی،سنگارپور، کینیڈا یا کسی بھی ملک کی مثال دیکھ لیں،کسی بھی ملک میں سرمایہ کاروی کے باعث پیسہ اسٹاک ایکس چینج میں آتا ہے جس کے بعد دیگر انڈسٹریز کے پاس جاتا ہے اور تعمیراتی صنعت کی وجہ سے پاکستان کی اسٹاک مارکیٹ بہت اوپر جاچکی ہے لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ پورے ملک میں تعمیراتی شعبہ اپنی پوری استعداد سے کام نہیں کرپارہاہے۔ اسلام آباد اور پنجاب کے مقابلے میں کراچی اور سندھ میں کام نہیں ہورہا ۔

ایم ایم نیوز: موجودہ حالات میں 25 ہزار کمانے والے شخص کیلئے اپنا گھر بنانا ناممکن کیوں ہے ؟

جوہر اقبال: اگر کسی کی آمدن کم ہے تو اس کو چھت فراہم کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے، وفاق عوام کو گھر فراہم کرنے کیلئے مختلف مراعات دے رہا ہے اور اس کیلئے اقداما ت بھی اٹھائے جارہے ہیں۔

پنجاب میں نیا پاکستان پروگرام کے تحت ڈھائی سو سے زائد بلڈنگز کے نقشے منظور ہوچکے ہیں لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ سندھ میں اب تک صرف 21نقشے منظور ہوئے ہیں۔وزیراعظم پاکستان کو اس کا نوٹس لینا چاہیے کہ سندھ میں دیگر صوبوں کی طرح کام کیوں نہیں ہورہا۔

ایم ایم نیوز: سندھ میں سست رفتار کی وجہ سے تعمیراتی صنعت یا ملک کو کتنا نقصان ہوسکتا ہے؟

جوہر اقبال: یہ حقیقت ہے کہ جب سندھ کی انڈسٹری یا تعمیراتی صنعت ترقی کرتی ہے تو اس سے پورے ملک کو فائدہ ہوتا ہے لیکن اس وقت سندھ میں تعمیراتی سرگرمیاں سست ہیں تاہم ایف پی سی سی آئی کے پلیٹ فارم سے وزیراعظم پاکستان کو مسلسل آگاہ کیا جارہا ہے کہ سندھ میں ملک کے دیگر صوبوں کی نسبت تعمیراتی سرگرمیاں کم ہیں جس کو بڑھانے کی ضرورت ہے۔

ایم ایم نیوز: کراچی میں پراپرٹی کی قیمتیں کئی گنا بڑھنے کی اصل وجہ کیا ہے؟

جوہر اقبال: کراچی میں پراپرٹی کی قیمتیں بڑھنے کی وجہ حکومت کی ناکامی ہے۔ حکومت جب اپنے شہریوں کو بنیادی سہولیات دینے میں ناکام ہوجاتی ہے تو پسماندہ علاقوں کے مکین اپنی آبائی زمینیں چھوڑ کر پوش علاقوں کا رخ کرلیتے ہیں اور جب شہر میں ایسی صورتحال پیدا ہوجائے تو قیمتیں بڑھنا ایک لازمی امر ہے لیکن اگر حکومت عوام کو پورے شہر میں یکساں سہولیات فراہم کرے تو شہری دوسرے علاقوں کا رخ نہیں کرینگے اور پراپرٹی کی قیمتیں خود بخود نیچے آجائینگی۔

ایم ایم نیوز: کیا پی ٹی آئی حکومت عوام کو 50 لاکھ گھر دینے کا وعدہ پورا کرپائیگی؟

جوہر اقبال: 50 لاکھ گھر فراہم کرنا مشکل ضرور ہے لیکن ناممکن نہیں ہے ۔شائد یہ حکومت 50 لاکھ گھروں کا وعدہ پورا نہ کرپائے لیکن اگر حکومت 5 لاکھ گھر بھی بنادیتی ہے تو یہ بہت بڑی کامیابی ہوگی کیونکہ ایک آغاز تو ہوگا۔اگر آنیوالی حکومت 10 لاکھ کا ہدف طے کرے گی تو اس طرح جلدیا بدیر 50 لاکھ گھروں کا ہدف عبور ہوسکتا ہے۔

ایم ایم نیوز: کراچی میں جائیداد کے کاروبار میں سرمایہ کاری کم ہونے کی وجہ کیا ہے؟

جوہر اقبال: آج ہمارے شہر میں سرمایہ کاری کم ہونے کی وجہ یہ ہےکہ کراچی سرمایہ کاروں کا اعتماد کھوچکا ہے، ہم کوئی بھی چیز فروخت کرتے ہیں تو لوگ شبہات کا اظہار کرتے ہیں کہ ہمارے کاغذات چیلنج تو نہیں ہوجائینگے یا کوئی اور دعویدار تو نہیں آجائیگا ؟ یہی وجہ ہے کہ آج کراچی میں لوگ پیسہ لگانے میں خوف کا شکار ہیں جو کراچی اور سندھ کے سرمایہ کاروں کیلئے پریشانی کی بڑی وجہ ہے۔

ایم ایم نیوز: کراچی عمارتوں کا جنگل بن چکا ہے، زلزلے کی صورت میں کتنا نقصان ہوسکتا ہے ؟

جوہر اقبال: کراچی میں بلاشبہ عمارتوں کا جنگل نظر آتا ہے اور کراچی میں کئی بار زلزلہ آچکا ہے لیکن اللہ کے کرم سے کراچی پہلے بھی آباد تھا اور آج بھی آباد ہے۔

جہاں تک قومی اداروں کی تنقید کا معاملہ ہے تو عدلیہ بلڈنگز کی اجازت دینے والوں سے بھی بازپرس کرے ۔ المیہ تو یہ ہے کہ لیز علاقوں کے علاوہ کراچی کی کچی آبادیوں میں بھی کثیر المنزلہ عمارتیں بن گئی ہیں لیکن کوئی نوٹس لینے والا نہیں ۔

Related Posts