17 سال بعد ایکشن؛ کیا آزادی مارچ کا حافظ حمد اللہ کی شہریت سے کوئی تعلق ہے ؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

پاکستانی سیاست میں کوئی چیز حرف آخر نہیں ہے، سیاسی ضروریات بدلتی رہتی ہیں، دشمن اور دوست بدلتے رہتے ہیں، موقف میں تبدیلی آتی رہتی ہے اور سیاسی اصول بھی بدلتے رہتے ہیں، جس طرح مسلم لیگ ن کے قائد نوازشریف کی علالت کے باعث حکومتی موقف میں تبدیلی ہے یہ توموجودہ سیاسی صورتحال سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ سیاست دانوں کو ہمیشہ اپنے رویوں میں لچک رکھنی چاہیے، کبھی بات چیت کے دروازے بند نہیں کرنے چاہئیں اور سیاسی حریفوں سے کشیدگی صرف میدان سیاست تک ہی محدود رکھنی چاہیے، قومی مفاد اور ملک کے مستقبل کے لیے تمام اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ ہمیشہ بات چیت کا راستہ اختیار کرنا چاہیے،یہی طرز عمل ملکی ترقی میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔

جے یو آئی ف کے آزادی مارچ کا وقت قریب آتے ہی ایک طرف حکومت نے مارچ روکنے کیلئے اقدامات شروع کردیئے ہیں،اسلام آباد اور کراچی میں جے یو آئی (ف) کے کارکنوں کی گرفتاری عمل میں لائی گئی ہے اور گرفتار کارکنوں کیخلاف مختلف مقدمات بھی درج کئے گئے ہیں۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق وفاقی حکومت کی جانب سے دریائے سندھ پر پنجاب اور خیبر پختونخوا کو ملانے والے اٹک پل پر کنٹینر لگا کر رکاوٹیں کھڑی کرنا شروع کر دی گئی ہیں۔ پہلے مرحلے میں کنٹینر اٹک پل کے کناروں پر رکھے گئے ہیں اور ساتھ ہی خادار تار لگانے کا سلسلہ بھی شروع کردیا گیا ہے۔

تو دوسری جانب نادرا نے جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی) ف کے مرکزی رہنما سینیٹر حافظ حمد اللہ کی پاکستانی شہریت منسوخ کردی ہے۔نیشنل ڈیٹابیس رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) نے جے یو آئی ف کے مرکزی رہنما حافظ حمد اللہ کو غیر ملکی قرار دیتے ہوئے ان کا شناختی کارڈ منسوخ کردیا۔ یہ انکشاف پاکستان میں میڈیا کے نگراں ادارے پاکستان میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) کے ایک نوٹی فکیشن کے ذریعے ہوا۔پیمرا نے ایک حکم نامہ جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ نادرا نے 11 اکتوبر کو ایک مراسلہ پیمرا کوبھجوایا جس میں حافظ حمد اللہ کو ایلین (غیر ملکی) قرار دیا گیا ہے،نادرا کے مراسلے کی روشنی میں پیمرا نے حافظ حمد اللہ کی ٹی وی کوریج پر پابندی لگاتے ہوئے ہدایت کی کہ تمام ٹی وی چینلز حافظ حمد اللہ کو اپنے پروگرامات، ٹاک شوز اور خبروں میں مدعو نہ کریں کیونکہ وہ پاکستان کے شہری نہیں ہیں بلکہ ایلین (غیرملکی) ہیں۔

جمعیت علمائے اسلام (ف) کے رہنماحافظ حمد اللہ 2002کے جنرل الیکشن میں بلوچستان اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے، 2002سے 2005 تک بلوچستان کے وزیرصحت رہے، مارچ 2012میں سینیٹ کے رکن بنے اور سینیٹ کی کمیٹی برائے مذہبی امور وبین المذاہب ہم آہنگی کے چیئرپرسن بھی رہے۔ حافظ حمد اللہ کے والد قاری ولی محمد 70 کی دہائی میں سرکاری اسکول کے ٹیچر کی حیثیت سے ریٹائرہوئے جبکہ حافظ حمداللہ کے بیٹے شبیر احمد پاک فوج کے سکینڈ لیفٹیننٹ ہیں۔

حافظ حمد اللہ جے یوآئی کے آزادی مارچ کے حوالے سے پچھلے چند دنوں سے پاکستان کے الیکٹرانک میڈیا میں انتہائی موثر آواز بن کر حکومتی خامیوں کا احاطہ اور مولانا فضل الرحمٰن کا دفاع کرتے نظرآئے ایسے میں محض سیاسی چپقلش کی بناپر ان کی شہریت منسوخ کرنا انتہائی قابل تشویش اقدام ہے، پاکستان کی سیاست میں یہ بات ہمیشہ دیکھی گئی ہے کہ برسراقتدار طبقہ مخالفین کو کچلنے کیلئے جب چاہے دن دہاڑے گولیاں برسانے کے احکامات دے دیتا ہے اور کفر اور غداری کے فتوے تو پاکستان میں عام سی بات ہے تاہم حکمراں  جماعت کو یہ بات ہمیشہ یاد رکھنی چاہیے کہ اقتدار ہمیشہ نہیں رہے گا آج آپ حکومت میں ہیں تو کل اپوزیشن میں بھی آسکتے ہیں جیسے کل آپ کا دھرنا اور سول نافرمانی کے فتوے جائز اور اب احتجاج غیرقانونی ہوگیا ہے ایسے ہی کل کو آپ کو بھی مکافات عمل سے گزرنا پڑسکتا ہے تو خدارا ایسے بیج نہ بوئیں جس کی فصل کاٹنے میں آپ کو بھی ایسے کرب سے گزرنا پڑے۔

Related Posts