شہرِ قائد کے علاقے ڈیفنس سے اغوا ہونے والے نوجوان مصطفیٰ عامر کے قتل کیس میں اہم پیشرفت سامنے آئی ہے۔ انسدادِ دہشت گردی عدالت نے مرکزی ملزم ارمغان کے خلاف فردِ جرم منظور کرتے ہوئے کیس کو ٹرائل کورٹ منتقل کر دیا ہے جس سے مقتول کے لواحقین کو انصاف ملنے کی امیدیں بڑھ گئی ہیں۔
پولیس کی جانب سے جمع کرائی گئی عبوری چالان میں بتایا گیا ہے کہ 6 جنوری کو ارمغان اور اس کے ساتھی شیراز نے مصطفیٰ کو اپنے گھر میں تشدد کا نشانہ بنایا اور پھر اسے اپنی گاڑی کے ٹرنک میں چھپاکر حب، بلوچستان لے جا کر زندہ جلا دیا۔
تفتیشی افسر نے مزید بتایا کہ ملزمان کے اعترافی بیانات اور سی سی ٹی وی فوٹیج سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ وہ مقتول کی گاڑی میں حب روانہ ہوئے تھے۔
بلوچستان پولیس نے جلتی ہوئی گاڑی سے برآمد ہونے والی لاش کو ایدھی فاؤنڈیشن کے سرد خانے میں دفن کر دیا تھا۔ بعد ازاں، کراچی یونیورسٹی کی لیب سے حاصل کردہ ڈی این اے سیمپلز سے مقتول کی شناخت مصطفیٰ عامر کے طور پر ہوئی۔
ارمغان نے عدالت میں اپنے جرم کا اعتراف کرنے سے انکار کیا ہے اور الزام عائد کیا ہے کہ پولیس اس سے زبردستی بیان لینے کی کوشش کر رہی ہے۔
ملزم کے ساتھی شیراز نے بھی اپنے اعترافی بیان سے انکار کیا ہے۔نسدادِ دہشت گردی عدالت نے ارمغان کی جسمانی ریمانڈ میں 24 مارچ تک توسیع کر دی ہے تاکہ تفتیش مکمل کی جا سکے اور مزید شواہد اکٹھے کیے جا سکیں۔
یہ کیس کراچی میں نوجوانوں کے درمیان بڑھتے ہوئے تنازعات اور تشدد کی عکاسی کرتا ہے، اور اس کے ذریعے معاشرتی سطح پر دوستیوں اور تعلقات کے اثرات پر غور و فکر کی ضرورت کو اجاگر کرتا ہے۔