واقعۂ کربلا حق و باطل کے مابین جنگ کا مظہر ہے۔مفتی سیّد شہریار داؤد

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

واقعۂ کربلا حق و باطل کے مابین جنگ کا مظہر ہے۔مفتی سیّد شہریار داؤد
واقعۂ کربلا حق و باطل کے مابین جنگ کا مظہر ہے۔مفتی سیّد شہریار داؤد

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

کربلا کے میدان میں حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کو اہلِ بیت سمیت شہید کردیا گیا اور یہ تاریخ کی واحد جنگ ہے جسے مسلمان قوم ہر سال یاد کرتی ہے کیونکہ واقعۂ کرب و بلا اسلام کو زندگی عطا کرگیا۔

واقعۂ کربلا کے حوالے سے ایم ایم نیوز کے پروگرام دین کی دنیا میں گفتگو کرتے ہوئے مفتی سید شہریار داؤد نے اسلام کی عظمت سے متعلق مختلف پہلو اجاگر کیے جس کا احوال نذرِ قارئین ہے۔

ایم ایم نیوز: واقعۂ کربلا پر بے شمار کتابیں لکھی گئیں اور ان گنت علمائے کرام نے سیر حاصل گفتگو کرکے اس کا ایک ایک نکتہ سمجھایا، تاہم آج بھی لوگ اس کے متعلق جاننا چاہتے ہیں کہ یہ واقعہ ہے کیا اور حضرت امام حسین سے جنگ کیوں کی گئی؟

مفتی سیّد شہریار داؤد: بات یہ ہے کہ واقعۂ کربلا کو ہمارے ہاں بد قسمتی سے ایک قصہ یا ایک بڑی ہی جذباتی کہانی سمجھ کر بیان کیا جاتا ہے اور اس کا اصل مقصد اور فلسفہ بیان ہی نہیں کیا جاتا۔ اگر دینِ اسلام کی تاریخ اٹھا کر دیکھیں تو آدم علیہ السلام کی توبہ، ہابیل قابیل کا تنازعہ، حضرت نوح علیہ السلام، لوط علیہ السلام، عیسیٰ علیہ السلام اور موسیٰ علیہ السلام سمیت تمام انبیائے کرام کے ہاں حق و باطل کی جنگ نظر آئے گی۔ پتہ یہ چلتا ہے کہ ازل سے لے کر ابد تک حق و باطل کی جنگ جاری رہے گی لیکن اس جنگ میں کون حق پر ہے اور کون باطل پر، اس کا صحیح معنوں میں سمجھنا، حق کی تائید کرنا اور ان کے صدقے میں اپنی مغفرت طلب کرنا درست حقیقت ہے۔ برصغیر پاک و ہند میں واقعۂ کربلا کو جذباتی قصہ سمجھ کر بیان کرنے والے غم اور اشکباری کے سوا کچھ حاصل نہیں کرپاتے۔ حسینیت کسے کہتے ہیں، لوگ اس کا فلسفہ نہیں بتاتے۔ جب عین شہادت کا وقت آیا تو امام عالی مقام حضرت امام حسین علیہ السلام نے کہا کہ ٹھہر جاؤ، مجھے اللہ کے حضور سجدہ کرنے دو۔ وہ جمعے کا روز تھا۔ امامِ عالی مقام نے بتا دیا کہ میرا سر کٹنے والا ہے، مجھے اس کی فکر نہیں ہے۔ فکر ہے تو مجھے اپنے رب کے سجدے اور نماز کی فکر ہے۔ حسینیت نے نماز کا درس دیا۔ رسول اللہ ﷺ نے نماز کو اپنی آنکھوں کی ٹھنڈک قرار دیا۔

ایم ایم نیوز: امام حسین اور اہلِ بیت کو نہ ماننے والے مسلمان نہیں ہوسکتے۔ سنا ہے حسنین کریمین رسول اللہ ﷺ کے بڑے لاڈلے تھے؟

مفتی سیّد شہریار داؤد: اتنے زیادہ لاڈلے تھے کہ حسین رضی اللہ عنہ ایک روز مسجدِ نبوی ﷺ میں تشریف لائے  کہ آپ کا پاؤں کسی چیز میں اٹکا اور آپ گرنے لگے تو نبی کریم ﷺ ممبر پر خطبہ ارشاد فرما رہے تھے۔ خطبہ چھوڑ کر ممبر سے نیچے اترے اور آپ کو جھولی میں اٹھا لیا، ایک روایت میں آتا ہے کہ اپنے کندھے پر بٹھا لیا۔ آپ ﷺ نے اسی حالت میں خطبہ جاری رکھا جو آنحضرت ﷺ کی امام حسین علیہ السلام سے محبت کا مظہر ہے۔ ایک بار حضرت حسین اور حضرت امام حسن نے آپس میں کشتی کی جب ان کی عمریں 4 سے 5 برس کے درمیان تھیں اور حضور ﷺ امام حسن کا ساتھ دے رہے تھے۔ شہزادئ کونین فاطمۃ الزہراء نے سوال کیا کہ آپ بڑے بھائی حسن رضی اللہ عنہ کا ساتھ دے رہے ہیں۔ حسین رضی اللہ عنہ کو کیوں نہیں بتاتے؟ فرمایا اسے جبرئیل بتا رہے ہیں۔ جن کے ساتھ جبرئیل جیسا مقرب فرشتہ آ کر کھیلے، ان کی شان اور مقام کا کون اندازہ لگا سکتا ہے؟ ایک بار ایک بزرگ صحابی کو وضو کرتے ہوئے دیکھا تو دونوں شہزادوں نے ان کی غلطی کی نشاندہی اس طرح کی کہ انہیں ناگوار بھی نہیں گزرا۔ دونوں نے ان کی خامی بتانے کی بجائے یہ کہہ کر خود وضو کرکے دکھایا کہ ہمیں بتائیے کہ کہیں ہمارے وضو میں کوئی کمی تو نہیں رہ گئی؟ تو مذکورہ صحابی بولے کہ کمی تو میرے ہی وضو میں تھی۔ حضرت عثمانِ غنی سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس کسی نے کسی شخص کی خامی اکیلے میں لے جا کر دور کی، اس نے اسے مزین کردیا اور جس نے کسی کے سامنے اصلاح کی، اس نے اسے داغدار کردیا۔ 

ایم ایم نیوز: واقعۂ کربلا میں حضرت امام حسین اور اہلِ بیت نے جو مصائب اور تکلیفیں سہیں، انہیں بیان کرنا چاہئے لیکن قربانی سے کیا حاصل ہوا؟ کیا ہم وہ حاصل کر رہے ہیں؟ 

مفتی سیّد شہریار داؤد: مصائب اس لیے بیان کرنے چاہئیں کہ جب آپ پر وہ مشکلات آئیں تو آپ اپنی صورتحال کا ان سے تقابلی جائزہ لیں۔ کیا آپ کی مصیبت کربلا والوں سے بڑی ہے؟ کیا آپ تین دن سے پیاسے تھے؟ کیا کھانے کو کچھ بھی نہیں تھا؟ کیا آپ تپتے ہوئے صحرا میں ہیں؟ کیا آپ سخت نوکیلے پتھروں پر سجدے کر رہے تھے؟ مصائب اس لیے بیان کیے جاتے ہیں کہ آج کل 6 ماہ کے بچے کو کوئی تیر نہیں مارتا۔ امام حسین نے فرمایا کہ مجھے نہیں، اس بچے کو پانی پلا دو، یہ تو تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ شمر نے جواباً پانی دینے کی بجائے تیر چلا دیا۔ حضرت امام حسین نے اس پر واویلا نہیں مچایا بلکہ انا للہ و انا الیہ راجعون پڑھ کر بچہ خیمے میں پہنچا دیا اور فرمایا کہ مبارک ہو، اللہ نے تمہارا ایک اور شہزادہ اللہ تعالیٰ نے اپنی بارگاہ میں قبول کرلیا۔جو جنت کے جوانوں کے سردار ہیں کیا وہ دنیا کی بادشاہت لینے آئے تھے؟ فرات کا پانی ترس رہا تھا کہ اہلِ بیت کی پیاس بجھائے۔ اہلِ بیت نے یہ مصائب اس لیے برداشت کیے تاکہ دینِ حق کی حقانیت واضح ہوسکے۔ طاقت حق پر ہونے کی دلیل نہیں ہے۔ حق اللہ کی خوشنودی اور شریعت کی سربلندی ہے۔ آج حسینیت کا نعرہ لگانے والے نماز کو چھوڑ رہے ہیں جبکہ امام حسین علیہ السلام نے شہادت کے وقت تک نماز نہیں چھوڑی۔ 

ایم ایم نیوز: کربلا کے واقعے میں نبئ اکرم ﷺ کے گھرانے نے تو بے شمار قربانیاں دیں لیکن صحابہ کرام کے گھرانے بھی ان کے ساتھ لڑے۔ تو انہوں نے کتنی قربانیاں دیں؟ 

مفتی سیّد شہریار داؤد: آج کل سوشل میڈیا کے دور میں یہ گمراہی پھیلانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ شاید صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اہلِ بیت سے محبت نہیں کرتے تھے۔ امام حسین علیہ السلام کی عمر 6 سے 7 برس ہوگی۔ حضرت عمر فاروق کے بیٹے عبداللہ بن عمر ان کے ساتھ کھیل رہے تھے۔ امام حسین نے فرمایا کہ او غلام زادے، چل ہٹ، جا یہاں سے۔ یہ سن کر عبداللہ بن عمر روتے ہوئے اپنے والد حضرت عمر کے پاس پہنچ گئے۔ حضرت عمر فاروق سے شکایت کی۔ آپ نے فرمایا قسم کھاؤ کہ حضرت امام حسین نے ایسا فرمایا ہے۔ آپ نے کاغذ اورقلم دے کر فرمایا کہ حسین رضی اللہ عنہ سے کہو کہ یہی بات ہمیں لکھ کر دے دیں۔ بچے کو تعجب ہوا۔ فرمایا اگر انہوں نے یہ پرچہ لکھ کر دے دیا تو کل قیامت کے دن تمہاری اور میری بخشش کیلئے کافی ہوگا۔ اللہ تعالیٰ حسین رضی اللہ عنہ کی ہر بات کو پسند فرماتا ہے۔ اس سے صحابہ کرام کی محبت کا اندازہ لگائیں۔

ایم ایم نیوز: کیا ہم آج کل حضرت امام حسین علیہ السلام سے محبت کے اظہار کے وقت شریعت کے احکامات کا خیال کرتے ہیں؟ آج کا دور پرفتن ہے۔ مسلمانوں کو دبانے کی سازشیں کی جارہی ہیں۔ ہم دین کی حفاظت کیسے کریں؟

مفتی سیّد شہریار داؤد: آج کل ہم لوگ سچ نہیں بولتے۔ نہ ہم کاروبار میں دیانتداری کا خیال کرتے ہیں، نہ خواتین کے حقوق کا خیال رکھا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ انسانیت سب سے بڑا مذہب ہے۔ انسانیت کی بقاء کا جو درس امام حسین دے گئے، اس سے بڑا درس کوئی نہیں دے سکتا۔ جب تک ہم رسول اللہ ﷺ کی ذات کو اپنے ایمان کا مرکز نہیں بنائیں گے ، اس وقت تک کامیاب نہیں ہوسکتے۔ رسول اللہ ﷺ سے محبت کیسے پیدا کی جائے؟ اس کیلئے آسان ذرائع ہیں کہ تم مجھ سے محبت کرو، میرے اہلِ بیت سے محبت کرو۔ امہات المومنین اور صحابہ کرام سمیت متعدد افراد اس میں شامل ہیں۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی ایک صاحبزادی حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے نکاح میں تھیں۔ ان رشتہ داریوں کا مقصد یہ تھا کہ امتِ مسلمہ کو اہلِ بیت سے نسبت مل جائے۔ قیامت کے روز یہ نسبت ہماری بخشش کیلئے کافی ہوگی۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ میں تم سے کچھ نہیں مانگتا، صرف میری آل سے محبت کرو۔ اہلِ بیت سے محبت کرکے ہی ایمان بچایا جاسکتا ہے۔ 

ایم ایم نیوز: امتِ مسلمہ کو عاشورہ کے دن کے حوالے سے کیا پیغام دیں گے؟ ہم نے دیکھا ہے کہ بہت سے لوگ چھٹی کے دن سمجھ کر فارم ہاؤس جاتے ہیں اور تفریح کرتے ہیں۔ اس کے متعلق شریعت کا کیا کہنا ہے؟

مفتی سیّد شہریار داؤد: رسول اللہ ﷺ جب مدینہ منورہ پہنچے تو آپ ﷺ نے دیکھا کہ یہودی 10 محرم کا روزہ رکھتے ہیں۔ پتہ چلا کہ موسیٰ علیہ السلام کو اس روز فرعون سے نجات ملی تھی۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ میں 10 محرم کا روزہ رکھوں گا اور اس کے ساتھ ایک روزہ اور ملاؤں گا تاکہ تمہاری مخالفت ہو۔ 9 اور 10 محرم کا روزہ رکھنا رسول اللہ ﷺ کی سنت ہے جس کی برکت سے اللہ تعالیٰ 1 سال کے گناہ معاف فرما دیتا ہے۔ مسلمانوں کو چاہئے کہ 9 اور 10 یا پھر 10 اور 11 محرم کا روزہ رکھیں۔ 9 اور 10 محرم کے دنوں میں واقعۂ کربلا، اہلِ بیت، رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرام کے واقعات سنیں اور شرعی احکامات کیلئے دیا گیا وقت خرافات میں ضائع نہ کریں۔ اگر ہم ان دنوں کی حرمت برقرار رکھیں تو ہماری آخرت کیلئے سامان مہیا ہوگا۔ 

ایم ایم نیوز:بہت سے لوگ محرم میں نذرو نیاز بھی کرتے ہیں۔ اس کے حوالے سے کیا کہنا چاہیں گے؟

مفتی سیّد شہریار داؤد: نذر و نیاز سارا سال کی جانی چاہئے۔ ان دنوں میں تلاوتِ قرآنِ پاک کثرت سے کریں۔ ختمِ قرآن بھی کریں۔ کوئی چیز پکا کر مسلمانوں کو کھلائیں۔ نیت یہ ہو کہ جو کچھ بھی کر رہے ہیں، اللہ کی رضا کیلئے کر رہے ہیں اور دعا کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ اس کا ثواب شہدائے کربلا تک پہنچائے تاکہ جب وہ دعا کریں تو ہماری آخرت بہتر ہوسکے۔ 

Related Posts