کراچی میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج میں 50 سے زائد گھوسٹ ملازمین کا انکشاف

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

کراچی: کراچی میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج میں 50 سے زائد گھوسٹ ملازمین کا انکشاف ہوا ہے۔

تفصیلات کے مطابق کراچی میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج (کے ایم ڈی سی) میں گھوسٹ ملازمین کے نام پر کروڑوں روپے کی خوردبرد کی جارہی ہے، مالی بے ضابطگیوں پر کمیٹی کی رپورٹ کے باوجود ملوث افراد کے خلاف کارروائی نہ ہونے کی وجہ سے کرپشن و کمیشن کے ریٹ بڑھا لیے گئے ہیں جبکہ کرپشن و کمیشن میں ملوث افراد کو اعلیٰ عہدوں سے بھی نواز دیا گیا ہے۔

کراچی میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج (کے ایم ڈی سی) کے سیلری اکاوئنٹ سے جعل سازی کے ذریعے 50 سے زائد اضافی (گھوسٹ) ملازمین کی تنخواہیں کمیشن کی بنیاد پر ادا کی جاری ہیں۔ شہری حکومت کے ماتحت چلنے والا کراچی میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج (کے ایم ڈی سی) خود مختار ادارہ ہے جو طلبہ و طالبات کی فیس کی مد میں ماہانہ فیس وصولی کے ذریعے اپنے اخراجات مکمل کرتا ہے۔

جب کہ سندھ حکومت بذریعہ شہری حکومت بھی علیحدہ سے ہر سال بجٹ میں بھاری رقم مختص کرتی ہے تاہم کے ایم ڈی سی میں پرنسپل آفس، فنانس ڈیپارٹمنٹ کی مبینہ ملی بھگت کے ذریعے مالی بے ضابطگیاں عروج پر جاری ہیں، جس میں ملازمین کے نام پر جاری ہونے والی تنخواہوں میں بھی ہیر پھیر سامنے آچکی ہے۔

یہ بھی پڑھیں:

جامعہ کراچی سینٹر آف ایکسیلنس اِن میرین بیالوجی مستقل ڈائریکٹر سے محروم

جس کے لیے کراچی میونسپل کارپوریشن کے شعبہ فنانس کی سرپرستی میں بننے والی کمیٹی کی رپورٹ بھی ہے اس کمیٹی میں ڈائریکٹر ویلفیئر بورڈ فنانس ڈیپارٹمنٹ کے ایم سی، ڈائریکٹر ایڈمن بجٹ کے ایم سی فنانس ڈیپارٹمنٹ سمیت دیگر بھی شامل تھے۔ کمیٹی اراکان کے مطابق اِس انکوائری میں بیشتر ملازمین نے دیگر مالی بے ضابطگیوں سے متعلق بھی کمیٹی کو آگاہ کیا۔

کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق کے ایم ڈی سی میں 50 سے زائد گھوسٹ اضافی ملازمین کے نام پر 2015 سے 22 کروڑ سے زائد کی رقم نکالی گئی ہے اور اِن اضافی ملازمین کو کے ایم ڈی سی میں خوردبرد میں ملوث عناصر ہر تنخواہ پر 5 فیصد کمیشن دیتے ہیں اور 95 فیصد رقم اَز خود تقسیم کرلیتے ہیں۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ گریڈ ایک سے لے کر گریڈ 16 تک کے ملازمین کو کے ایم ڈی سی نے کے ایم سی کی منظوری کے بغیر ملازمت پر رکھا اور کے ایم ڈی سی کے حاضر سروس ملازمین کی ماہانہ تنخواہیں جس بلنگ کے ذریعے کلیئر ہورہی تھیں اُن کی اصل دستاویز کو مخفی رکھا گیا اور کے ایم سی اور نجی بینک کے سیلری اکاوئنٹ سے ہر ماہ یہ تنخواہ متواتر نکالی جاتی رہی ہے جس کا سلسلہ اب بھی جاری ہے اور کے ایم سی کی رپورٹ میں اصل ملوث افراد کی نشاندہی ہوئی، تاہم کے ایم ڈی سی کے پرنسپل آفس سے ملوث عناصر کے خلاف کارروائی نہیں کی جاسکی ہے۔

خیال رہے کہ اس حوالے سے کے ایم ڈی سی کی پرنسپل ڈاکٹر نرگس انجم کو سوال بھیجا گیا تاہم انہوں نے جواب نہیں دیا۔