رحمۃ للعالمین و خاتم نبیینؐ اتھارٹی بل پرصدر مملکت کے دستخط نہ ہوسکے،تاخیری حربوں کا استعمال

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

اسلام آباد: وفاقی وزیر پارلیمانی امور مرتضی جاویدعباسی کی جانب سے قومی رحمۃ للعالمین و خاتم نبیین اتھارٹی بل صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی کو ارسال کیا گیا تھا مگر تین ہفتے گزرجانے کے باوجود اب تک ایوان صدر سے فائل واپس نہ آئی۔

قومی اسمبلی اور سینٹ میں موجودہ حکومت کے وزیر تعلیم و پیشہ وارانہ تربیت رانا تنویر حسین کی جانب سے اتھارٹی کا بل ترمیم کے ساتھ پیش کیا گیا تھا اور وزارت پارلیمانی امورکی جانب سے ایوان صدر کو فائل ارسال کردی گئی تھی۔ تاہم تین ہفتے گزرجانے کے باوجود اب تک صدر پاکستان کی جانب سے بل پر دستخط نہ ہونے کے سبب اتھارٹی ایکٹ نہیں بن سکی ہے۔

تفصیلات کے مطابق سابق وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے قائم کردہ قومی رحمۃ للعالمین اتھارٹی کا قیام عمل میں لایا گیا تھا، سابق وزیر اعظم نے سیرت النبیؐ کے حوالے سے اتھارٹی کاچیئرمین مختلف 5 مختلف شعبہ جات کے سیرت ماہرین کا انتخاب کیا تھا۔ لیکن اپنی حکومت کے دورانیہ کے آخری چار ماہ میں اتھارٹی کے بل کو نہ تو قومی اسمبلی اور نہ ہی سینیٹ سے منظور کرایا جاسکا۔

لیکن موجودہ حکومت کے وزیر اعظم شہباز شریف نے آتے ہی 9 جون کو آرڈیننس ختم ہونے سے قبل ایکٹ بنانے کی جانب پیش رفت کرائی۔ 9 جون کو سینٹ پاکستان سے ترمیم کردہ بل منظوری کے بعد وفاقی وزارت پارلیمانی امور کی جانب سے قومی رحمۃ للعالمین و خاتم نبیینؐ اتھارٹی صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی کو ارسال کردیا گیا مگر تین ہفتے گزرجانے کے باوجود اب تک صدر مملکت اس معاملے کو لٹکائے بیٹھے ہیں۔

ایوان صدر کے ذرائع کے مطابق صدر مملکت کی جانب سے بل پر دستخط نہ کرنے اورتاخیری حربے کا ایک سبب یہ بتایا جارہا ہے کہ موجودہ حکومت اس اتھارٹی کو ایکٹ بنانے کا کریڈیٹ نہ لے جائے اور اس معاملہ کو جتنا ممکن ہوسکتا ہے طول دیا جائے۔

قومی اسمبلی کے ایک اہم ذمہ دار نے نام نہ بتانے کی شرط پر بتایا ہے کہ اگر قومی اسمبلی اور سینٹ کے منظور ہونے والے کسی بل پر صدر مملکت دستخط نہ کریں یاتاخیری حربہ اختیار کریں تو دوسری جانب ایسے بل کو حکومت کی جانب سے دوبارہ قومی اسمبلی اور سینٹ کے جوائنٹ سیشن میں پیش کرکے ایکٹ میں تبدیل کراسکتی ہے۔

قومی رحمۃ للعالمین و خاتم نبیینؐ اتھارٹی ایکٹ نوٹی فائی ہونے کے بعد وزیر اعظم پاکستان کی منظوری سے جہاں نئے چیئر مین اور 8 ممبران کا ضابطہ کے تقرر عمل میں لایا جائے گا۔ وہاں ایکٹ کے مطابق پاکستان اور بیرون ملک کے ممتاز اور ماہر اسکالرز حضرات پر مشتمل دس رکنی نئی مشاورت کمیٹی بھی قائم کی جائے گی۔

واضح رہے کہ اتھارٹی میں ترمیم کے بعد 6 کے بجائے 8 ممبران منتخب ہونگے،جس میں دو مسلمان قومی اسمبلی کے ممبرز اور 6 ممبرز ہونگے۔ ایکٹ شق نمبر 6 اور ذیلی دفعہ 4 کے مطابق معروف ممتازسیرت طیبہ کا اسکالر جو مختلف شعبہ جات میں تحقیق کی مقبول صلاحیت رکھتا ہو۔ ممتاز شخص جو جدید تحقیق کے مطابق حقائق کو استعمال کرنا اور تحقیق کو ذمہ لے سکتا ہو اور سیرت کی اصل روح کی عوام الناس میں اشاعت کرسکتا ہو۔

ممتاز شخص جو خصوصی طور پر پیغام سیرت کی بنیاد پر نوجوان نسل میں تخلیقی صلاحیت کو ابھارنے، روشناس کرانے کے اقدامات کو جدت پسند رسائی (میڈیا)کے ذریعہ اور اہلیت رکھتا ہو۔ ممتاز شخص جو بین الاقوامی برادری میں سیرت کی اصل روح اور بیانیے کی تشہیر کرتے ہوئے اسلاموفوبیا کے غلط تصورات کا جوابی بیانیہ فراہم کرنے میں بین الاقوامی دسترس کا ماہر ہو۔ ممتاز شخص جوکہ قومی نصاب میں سیرت کی مہارت رکھتا ہو۔ ممتاز شخص سیرت اور مذہب میں تحقیقات کا ماہر ہو۔

ان امور کی مہارت کے لیے لازمی ہوگا کہ ایسے ممبران کی اعلیٰ تعلیمی قابلیت (پی ایچ ڈی) ایم اے اسلامیات کی یا مساوی سند اسلامک ایجوکیشن،اسلامک لاء، تاریخ اور تاریخ اسلام اور کلچر یا ایل ایل بی، قانون شرعیہ یا شہادت العالمیہ کسی بھی منظور شدہ دینی وفاق اور ہائیر ایجوکیشن کمیشن کی مساوی سند رکھتا ہو۔

وزارت تعلیم کے ذرائع کے مطابق سابقہ حکومت میں رکھے جانے والے کچھ ممبران کے انتخاب میں خلاف ضابطہ کام کیا تھا۔ جبکہ قانونی طور پر ایم پی ون اسکیل ایک مستقل جاب کی پوسٹ کہلاتی ہے جس کے لیے کم از کم تعلیمی معیار پی ایچ ڈی اور کسی بھی متعلقہ شعبہ میں کم از کم 15 سال کا تجربہ ہونا بھی لازم ہوتا ہے۔ تاکہ اتھارٹی کے مختلف شعبہ جات کے پروجیکٹ کو چلانے کی مکمل اہلیت و صلاحیت کے حامل ہوں۔

مزید پڑھیں:حکومت کا قومی رحمۃ للعالمین ﷺ اتھارٹی بل ترمیم کے ساتھ لانے کی تیاری

اسلام آباد میں دینی مدارس کے کچھ علمائے کرام اور ماہر تعلیم سے ترمیمی ایکٹ کے باعث اتھارٹی کے نام میں خاتم النیبن کا اضافہ اور درس نظامی کی اسناد کو شامل کرنے کے عمل کو سراہا اور وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف سے امید ظاہر کی ہے کہ ایکٹ بننے کے بعد ممبران کی تقرری میں قانونی ضابطہ کے مطابق اہلیت و قابلیت اور تجربہ کاری کے معیار کومدنظر نہیں رکھا اور تقرری کے عمل میں سفارشی بھرتی اور تاخیری حربہ کی تو یقینی طور پر اتھارٹی اپنے نیک اور بنیادی مقاصد سے محروم رہ جائے گی۔