فائنل میں فتح حاصل کرنے پرخوشی سے آنسو آجاتے ہیں۔نقیب اللہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

فائنل میں فتح حاصل کرنے پرخوشی سے آنسو آجاتے ہیں۔نقیب اللہ
فائنل میں فتح حاصل کرنے پرخوشی سے آنسو آجاتے ہیں۔نقیب اللہ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

قومی گیمز میں گولڈ میڈل جیتنا بہت سے کھلاڑیوں کاخواب ہوتا ہے۔ کوئی بھی کھلاڑی اپنے کھیل کا سفر محدود پیمانے سے شروع کرکے ہی بامِ عروج تک پہنچتا ہے۔ نیشنل گیمز میں حصہ لینے والے کھلاڑی ہی عالمی مقابلوں میں پاکستان کو نئی پہچان دینے میں کامیاب ہوپاتے ہیں۔

ملک کے باصلاحیت اور جواں سال باکسر نقیب اللہ بھی ایک ایسے ہی کھلاڑی ہیں جو اپنی صلاحیتوں کا بھرپور مظاہرہ کر رہے ہیں۔ لاہور میں حال ہی میں 38ویں قومی گیمز میں گولڈمیڈل جیتنے والے باکسر نقیب اللہ سے ایم ایم نیوز نے خصوصی بات چیت کی جس کا احوال نذرِ قارئین ہے۔

ایم ایم نیوز: آپ نے گولڈ میڈل کیسے جیتا؟ باکسنگ کے شائقین کو کچھ بتائیے۔

نقیب اللہ: میں نے کافی محنت کی ہے، اس کے ساتھ ساتھ دعائیں بھی تھیں اور اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ اس نے بہت عزت دی۔ نیشنل کوچنگ سینٹر میں واپڈا کا 2 مہینے کا کیمپ تھا۔ واپڈا کی پوری ٹیم نے اس میں شرکت کی اور ہم نے پہلی پوزیشن کیلئے بھرپور محنت کی لیکن کچھ لڑکے ہار گئے، جس کی وجہ سے واپڈا کی دوسری پوزیشن آئی۔ہر بار واپڈا کا دوسرا نمبر ہی ہوتا ہے، اس بار ہم نے کوشش کرنی تھی کہ پہلی پوزیشن حاصل کریں، لیکن ٹیم ورک میں کامیابی نہیں مل سکی۔ پہلی پوزیشن آرمی کے نام رہی۔ 

ایم ایم نیوز: آپ نے کس سے مقابلہ کیا تھا؟ فائنل کس سے جیتا؟

نقیب اللہ: میں نے فائنل میچ آرمی سے ہی جیتا۔ اللہ نے عزت دی۔ ہماری واپڈا کی ٹیم کے دوسرے لڑکوں نے بھی بہت محنت کی اور اپنے اپنے میچز جیتے، تاہم مجموعی طور پر واپڈا کو دوسری پوزیشن ملی۔

ایم ایم نیوز: باکسنگ کے فن کے متعلق آپ کا تجربہ کیسا رہا؟ کچھ بتائیے؟

نقیب اللہ: باکسنگ میں میرا پسندیدہ داؤ لیفٹ ڈک کرنا ہے۔ جو پہلا داؤسیکھا وہ باکسنگ اسٹانس تھا۔ باکسنگ کے بہترین مقابلے اولمپکس اور اس کے بعد ایشین چیمپین شپ کے ہوتے ہیں۔ میرا پسندیدہ کھلاڑی ایک میکسیکن باکسر کنیلو الوریز ہے۔

ایم ایم نیوز: میچ جیتنے پر آپ کے احساسات کیا ہوتے ہیں؟کیا پاکستانی باکسرز باصلاحیت ہیں؟

نقیب اللہ: ہم باکسنگ کے کسی بھی مقابلے کے فائنل میچ سے قبل ہی بہت پرجوش ہوتے ہیں اور جب فائنل میں فتح حاصل کرتے ہیں تو خوشی کے آنسو نکلنے لگ جاتے ہیں۔ اگر پاکستانی باکسرز کو سہولیات دی جائیں اور جیسی غذائیں عالمی باکسرز کو دی جاتی ہیں تو ہم دنیا کے کسی بھی باکسر کو ہراسکتے ہیں۔

ایم ایم نیوز: اگر آپ کو باکسنگ کا کوئی ایک اصول چھوڑنے کا موقع ملے، تو وہ کیا ہوگا؟اگر آپ کوئی طاقت حاصل کرنا چاہیں جو آپ کیلئے فائدہ مند ہو، تو وہ کیا ہوگی؟ آپ کا پسندیدہ ملک اور شہر کون سا ہے؟

نقیب اللہ: ہر بار باکسنگ کا مقابلہ کرنے سے قبل ہمارا وزن کیا جاتا ہے، اگر موقع ملے تو یہ اصول ختم کرنا چاہوں گا۔ میں گوگو بننا چاہتا ہوں جو کامک دنیا کا ایک فائٹر کردار ہے۔ اس کے پاس بہت سی طاقتیں ہوتی ہیں۔ وہ اڑتا بھی ہے، فائٹ بھی کرتا ہے۔ میرا پسندیدہ ملک میکسیکو اور پسندیدہ ترین شہر کراچی ہے۔میرے پسندیدہ باکسر کنیلو کا تعلق بھی میکسیکو سے ہے۔ 

ایم ایم نیوز: آپ کو جنک فوڈ پسند ہے یا دیسی فوڈ؟ باکسنگ کے علاوہ کون سا کھیل پسند ہے؟باکسنگ کا ایسا کون سا مقابلہ پسند ہے جو آپ ویڈیو کی صورت میں بار بار دیکھتے ہوں؟ 

نقیب اللہ: مجھے باکسنگ کے علاوہ فٹبال پسند ہے۔ جنک فوڈ ایتھلیٹ سمیت کسی عام شہری کیلئے بھی اچھا نہیں ہوتا۔ وہ نہ ہی کھایا جائے تو بہتر ہے۔ مجھے دیسی فوڈ بہت پسند ہے۔ فائنل میچ جس سے گولڈ میڈل ملا، وہ بار بار دیکھتا ہوں۔ میڈانا اور میئر ویدر کی جو پہلی فائٹ ہوئی تھی جس میں میڈانا جیت گیا تھا۔ وہ فائٹ میں نے بہت دیکھی ہے۔

ایم ایم نیوز: آپ کو سیمی فائنل کے دوران ہاتھ پر چوٹ لگی اور فریکچر ہوگیا، اس کے باوجود آپ نے فائنل میچ جیت کر گولڈ میڈل کیسے حاصل کیا؟

نقیب اللہ: مجھے سیمی فائنل کے دوسرے راؤنڈ میں ہی ہاتھ پر چوٹ لگ گئی تھی، اس کے بعد سیمی فائنل کا آخری راؤنڈ بھی کھیلا۔ مجھے محسوس ہو رہا تھا کہ ہاتھ پر چوٹ لگی ہے لیکن میں نے دل پر نہیں لیا اور تکلیف کو خود پر حاوی نہیں ہونے دیا۔ تیسرا راؤنڈ کھیل کر سیمی فائنل جیت گیا۔ پھر فائنل والے دن ذہنی دباؤ تھا کہ ایک ہاتھ سے کیسے کھیلوں گا؟ لیکن صورتحال ایسی تھی کہ فائنل ہر حال میں جیتنا تھا۔ جسم بھی گرم تھا، درد زیادہ محسوس نہیں کیا۔ میں نے درد برداشت کرتے ہوئے کھیل جاری رکھا اور جیت میرا مقدر بنی۔ 

Related Posts