سینئر سیاستدان محمود مولوی نے پابندی کے باوجود پانچ لاکھ ٹن چینی سستے داموں بیرون ملک برآمد کرنے کی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔
اپنے ایک بیان میں سابق منتخب رکن قومی اسمبلی نے سوال اٹھایا ہے کہ جب ملک میں شوگر کی قلت اور قیمتوں میں اضافے کا واضح خدشہ موجود تھا، تو ایکسپورٹ کی اجازت کس نے دی؟ کیا یہ فیصلہ قومی مفاد کے خلاف نہیں تھا؟ اب پانچ ماہ بعد وہی حکومت پانچ لاکھ ٹن شوگر مہنگے داموں امپورٹ کرنے جا رہی ہے۔ یہ تضاد ناقابلِ فہم ہے۔
انہوں نے کہا کہ کیا یہ محض نااہلی ہے یا کسی مخصوص طبقے کو فائدہ پہنچانے کی دانستہ کوشش ہے؟ اگر پہلے چینی سستی بیچ کر اب مہنگی واپس خریدی جا رہی ہے، تو اس پورے عمل سے فائدہ کس نے اٹھایا؟ اور اس کا بوجھ ہمیشہ کی طرح عوام پر کیوں ڈالا جا رہا ہے؟
ان کا کہنا ہے کہ فیصلے نہ صرف غیر دانشمندانہ ہیں بلکہ عوام کے ساتھ صریح زیادتی کے مترادف ہیں۔ میں مطالبہ کرتا ہوں کہ جن افراد نے شوگر ایکسپورٹ کی اجازت دی، ان کے خلاف فوری، شفاف اور غیر جانبدارانہ انکوائری کی جائے اور قانون کے مطابق کارروائی ہو۔
ان کا مزید کہنا ہے کہ اگر واقعی اس ملک میں احتساب کا کوئی نظام موجود ہے، تو اب وقت ہے کہ وہ نظر بھی آئے۔