ڈپٹی سی ای او کنٹونمنٹ بورڈ کلفٹن ڈاکٹر محمد رضوان سے خصوصی گفتگو

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

ڈپٹی سی ای او کنٹونمنٹ بورڈ کلفٹن ڈاکٹر محمد رضوان سے خصوصی گفتگو
ڈپٹی سی ای او کنٹونمنٹ بورڈ کلفٹن ڈاکٹر محمد رضوان سے خصوصی گفتگو

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

کراچی کی تعمیر و ترقی کیلئے جس طرح دیگر ادارے اپنا کردار ادا کر رہے ہیں، کنٹونمنٹ بورڈ کلفٹن (سی بی سی) بھی اپنا نمایاں کردار ادا کرنے میں مصروفِ عمل ہے۔ 51 ہزار 327 مربع میل پر محیط علاقے میں تقریباً ساڑھے 5لاکھ افراد رہائش پذیر ہیں۔

یوں تو کنٹونمنٹ بورڈ کلفٹنن کا ادارہ پہلے بھی عوام کی خدمت میں پیش پیش رہا، تاہم ڈپٹی سی ای او ڈاکٹر محمد رضوان کی تعیناتی سے کچھ نئی تبدیلیاں سامنے آئیں۔ بے تحاشا ترقیاتی کام ہوا جس پر ایم ایم نیوز نے ڈاکٹر محمد رضوان سے خصوصی گفتگو کی جس کا احوال نذرِ قارئین ہے۔

ایم ایم نیوز: ڈاکٹر صاحب، آپ بتائیے گا کہ کنٹونمنٹ بورڈ کلفٹن کی کیا ذمہ داریاں ہیں؟

ڈاکٹر محمد رضوان: کنٹونمنٹ بورڈ کلفٹن میں تمام تر ترقیاتی کام جس میں سڑکیں اور گرین بیلٹس شامل ہیں، ان کی تعمیر و ترقی ہماری ذمہ داری ہے۔ فٹ پاتھ، اسٹریٹ لائٹس اور سگنلز سمیت دیگر سازوسامان کی دیکھ بھال بھی ہمارے فرائض میں شامل ہے۔ پورے علاقے میں صفائی ستھرائی اور نکاسئ آب، باغات اور ہارٹی کلچر اور پانی کی سپلائی وغیرہ بھی ہماری ذمہ داریوں میں شامل ہے۔

ایم ایم نیوز: آپ کے دائرۂ کار میں کچھ کالونیز بھی آتی ہیں۔ ان کے متعلق آپ کا کیا کہنا ہے؟

ڈاکٹر محمد رضوان: جی ہاں، ہمارے دائرہ کار میں کچھ ایسی آبادیاں آتی ہیں جنہیں کچی آبادیاں کہا جاتا ہے جن میں پنجاب کالونی اور دہلی کالونی شامل ہیں، ان میں بھی سی بی سی اپنے فرائض سرانجام دے رہا ہے۔ 

ایم ایم نیوز: عوام جاننا چاہتے ہیں کہ مون سون سیزن کے حوالے سے سی بی سی نے کیا تیاری کی ہے؟

ڈاکٹر محمد رضوان: مون سون کی تیاریوں کے حوالے سے بتاتا چلوں کہ گزشتہ مون سون سیزن میں خلافِ توقع ریکارڈ توڑ بارشیں ہوئیں۔ کلفٹن بورڈ اپنے دائرۂ کار میں آنے والے تمام علاقوں سے نکاسئ آب کا ذمہ دار ہے۔ سی بی سی نے گزشتہ مون سون کے دوران بھی اپنے فرائض بحسن و خوبی نبھائے لیکن اربن فلڈنگ آج کل بین الاقوامی سطح پر بھی دیکھنے کو ملتی ہے کیونکہ ماحول میں تبدیلی پیدا ہورہی ہے اور گلوبل وارمنگ عام ہوچکی ہے۔ بہت کم وقت میں بہت زیادہ بارش ہوجاتی ہے جس کیلئے ہمارا نظام تیار نہیں بلکہ امریکا اور جاپان سمیت ترقی یافتہ ممالک میں بھی اربن فلڈنگ مشکلات پیدا کرتی ہے۔ جب بارش کا پانی یہاں آتا ہے اور ہم مختلف قسم کے اقدامات اٹھاتے ہیں لیکن بنیادی طور پر اس کی تیاری بہت اہم ہے۔ گزشتہ سیزن کے بعد اگلے سیزن کیلئے ہم نے بہت سی تیاریاں کی ہیں۔ ہم نے اپنی سیوریج لائنز کو مکینیکل مشینز کے ذریعے صاف کردیا ہے اور یہ کام ابھی تک چل رہا ہے اور مون سون تک چلتا رہے گا۔ برساتی نالوں کی صفائی بھی بہت مہنگی ہوئی ہے۔ یہ نالے بارش کا پانی نکالنے کیلئے بنائے جاتے ہیں۔ ہمارے علاقے کا سیوریج کا نظام پمپنگ کے ذریعے چلتا ہے کیونکہ ہم سمندر سے قریب ہیں تو کششِ ثقل سے مدد نہیں لی جاسکتی۔ پمپنگ اسٹیشنز کو بہت ترقی دی گئی ہے تاکہ جب کیچڑ اور بھاری بھرکم کچرا آئے تو اسٹیشنز اس کے دوران فعال رہیں۔

دوسرا اقدام یہ ہے کہ گزشتہ سیزن میں بجلی کا تعطل بہت بڑا مسئلہ رہا۔ اب ہم نے یہ کیا ہے کہ ہیوی جنریٹرز استعمال کرنے کی تیاری کر لی گئی ہے۔

تیسرا اقدام یہ ہے کہ ہم نے پمپنگ اسٹیشنز کی استعداد میں اضافہ کیا ہے۔ 10 کے قریب 75 ہارس پاور کے پمپس لیے گئے ہیں جو 2500 گیلن فی منٹ پانی کو پراسیس کرسکتے ہیں یا نکال سکتے ہیں۔ اسی طرح مختلف گنجائش کے 210 دیگر پمپس ہیں۔ ہم نے اپنا ری ایکشن ٹائم کم کرنے کیلئے پورے علاقے کو 6 سیکٹرز میں تقسیم کر لیا ہے۔ ہم نے ہر سیکٹر انچارج کا نمبر سوشل میڈیا اور دیگر ذرائع ابلاغ سے عوام تک پہنچا دیا ہے تاکہ لوگ اپنا مسئلہ براہِ راست انہیں بتا سکیں۔ ہم نے مین پاور اور ایمرجنسی ٹیم کو علاقوں میں تعینات کردیا ہے جس سے یہ ہوگا کہ ہمیں بار بار پمپس کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل نہیں کرنا پڑے گا اور ہم بہت جلدی عوامی مسائل حل کرسکیں گے۔ 

ایم ایم نیوز: گزشتہ سیزن میں بھی بہت بارش ہوئی اور رواں سیزن میں بھی بہت سی بارش متوقع ہے۔ کیا ہم بارش کے پانی کو استعمال کرنے کا کوئی سسٹم وضع کرسکے ہیں یا نہیں؟

ڈاکٹر محمد رضوان: یہ ایک گنجان آباد علاقہ ہے جہاں ہمارے پاس پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش نہیں ہے۔ پانی ذخیرہ کرنے کیلئے پاکستان میں بھی کہیں نہ کہیں تجرباتی بنیادوں پر کام ہورہا ہوگا۔ یہ کام بڑے پیمانے پر کہیں نہیں ہوا۔ کنٹونمنٹ بورڈ کلفٹن کیلئے بڑا چیلنج زیرِ زمین پانی ہے۔ یہاں زیرِ زمین پانی کی سطح بہت بلند ہے۔ بارش کے دنوں میں کوئی انڈر گراؤنڈ ٹینک یا اس قسم کی دیگر چیز ہمارے پاس نہیں جس میں پانی ذخیرہ کیا جاسکے۔ بہرحال یہ کام تجرباتی بنیادوں پر ضرور کسی نہ کسی سطح پر کیا جاسکتا ہے۔

ایم ایم نیوز: سی بی سی کے زیرِ انتظام بڑے برساتی نالے کون کون سے ہیں جہاں بارش کا سارا پانی جمع ہوتا ہے؟

ڈاکٹر محمد رضوان: ہمارے ہاں پانی کی نکاسی کا انتظام 2 طرح کا ہے۔ کچھ نالوں کی نکاسی کا انتظام سی ویو پرسمندر کے اندر ہے اور کچھ کا انتظام الگ ہے، حتمی طور پر تو پانی سمندر میں ہی جاتا ہے۔ مثال کے طور پر محمود آباد ندی پورے شہر سے گزرتی ہے۔ 

ایم ایم نیوز: آپ نے پارکس کو بہت خوبصورت بنایا ہے۔ آپ کے پاس یہ آئیڈیا کہاں سے آیا؟

ڈاکٹر محمد رضوان: اپنے علاقوں کو خوبصورت بنانے کا کام میونسپل باڈیز کا فرض ہوتا ہے۔ سی بی سی نے بھی یہ اقدام اٹھایا۔ ہم اس پورے علاقے میں خوبصورتی کیلئے کام کر رہے ہیں۔ہم نے پورے علاقے میں پارکنگ کیلئے اچھی جگہ کا انتظام کیا ہے۔ علاقے کو سرسبز و شاداب بنانے کیلئے کام کیا ہے۔ بورڈ کا بنیادی نعرہ ہی کلین اینڈ گرین سی بی سی ہے۔ ہم نے درخت بھی ایسے لگائے ہیں جن پر پھول آتے ہیں۔ ہم پورے علاقے کو خوبصورت بنانا چاہتے ہیں۔

ایم ایم نیوز: سڑکوں پر بنائے گئے اسپیڈ بریکرز عوام کیلئے مشکلات پیدا کر رہے ہیں۔ صبح ہوتے ہی سی بی سی کام پر لگ جاتی ہے۔ ایک گھنٹے کے بعد عوام وہیں دوبارہ کچرا پھینک دیتے ہیں۔اس پر آپ کا کیا کہنا ہے؟

ڈاکٹر محمد رضوان: ہم عوام کیلئے ایک شعور و آگہی کی مہم شروع کرنے والے ہیں جس پر کام جاری ہے۔ دکاندار، کاروباری حضرات اور ریسٹورنٹس مالکان کو ہم گزارش ہی کرسکتے ہیں کہ کوڑے کرکٹ کی جلد سے جلد صفائی کیلئے تعاون کریں۔ کچرے کو کچرا دان میں پھینکا جائے۔ تھوڑی سی سستی کی وجہ سے لوگ کچرا سڑکوں پر پھینک دیتے ہیں۔ جلد بازی میں بھی ایسا کیا جاتا ہے۔ اس کی وجہ سے مسائل بڑھ جاتے ہیں۔

ایم ایم نیوز: مستقبل قریب میں سی بی سی کیا کرنے والا ہے؟کون سے پراجیکٹس پائپ لائن میں ہیں؟

ڈاکٹر محمد رضوان: ہمارے پاس 32 پارکس ہیں جن کی صفائی ستھرائی اور دیگر انتظام ہم بہت اچھے طریقے سے کر رہے ہیں۔ایک اسپورٹس گراؤنڈ ہم بنا رہے ہیں جہاں عوام کو کھیلوں کی سرگرمیوں میں آسانی ہو۔ آئندہ مالی سال میں آپ ہمارے پائپ لائن کے پراجیکٹس کو کام کرتا ہوا دیکھیں گے۔ 

ایم ایم نیوز: اگر آپ اپنے اپنے علاقے کے رہائشی افراد اور دکانداروں کو کوئی پیغام دینا چاہیں تو وہ کیا ہوسکتا ہے؟

ڈاکٹر محمد رضوان: ہم نے سی بی سی میں ایک کنٹرول روم بنایا ہے جس کا نمبر ہم نے سوشل میڈیا پر شیئر کیا ہے۔ عوام سے ہماری گزارش ہے کہ بر وقت ہمیں اپنے مسائل سے آگاہ کریں۔ پہلے بھی ہم عوامی مسائل حل کر رہے تھے۔ جہاں بھی کوئی مسئلہ ہو، ہم 24 گھنٹے تیار ہوتے ہیں۔ ہماری اپنی مانیٹرنگ اور امدادی سرگرمیاں تو جاری رہتی ہی ہیں تاہم عوامی رائے شامل ہونے سے ہمارے لیے مزید آسانی ہوگی۔

Related Posts