کے ڈی اے کے بند دفاتر کراچی کی قیمتی اراضی پر قبضے کیلئے کھل گئے

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

KDA regrets killing of officers

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

کراچی :لاک ڈاؤن میں کے ڈی اے دفاتر زبردستی کھلوانے کا شاخسانہ ،ادارہ ترقیات کراچی کے افسران نے کلفٹن اورنیشنل اسٹیڈیم کے قریب قیمتی پلاٹوں کی بندر بانٹ شروع کردی۔

کلفٹن بلاک 4کے دو کمرشل پلاٹوں کے ساتھ نیشنل اسٹیڈیم سے ملحقہ کئی ارب مالیت کی 4ایکڑاراضی سوسائٹی کے نام پر ٹھکانے لگانے کی تیاریاں شروع کردی گئیں،قیمتی اراضی پر مبینہ ہاتھ صاف کرنے کیلئے چہیتے افسران کی تعیناتیوں کا انکشاف بھی ہوا ہے۔

سندھ حکومت کے لاک ڈاون میں دفاتر بند رکھنے کے احکامات کے باوجود کے ڈی دفاتر کھول کر ڈی جی کے ڈی اے نے درجنوں افسران و ملازمین اور ان کے خاندانوں کو کورونا وائرس میں مبتلا کر دیا ہے۔

کے ڈی اے محکمہ اسٹیٹ اینڈ انفورسمنٹ میں متنازعہ افسر شمس صدیقی کو ڈائریکٹر کے عہدے سے نواز دیا گیا،ممبر ایڈ منسٹریشن کے عہدے پر قدیر منگی کو پہلے ہی تعینات کیا جاچکا ہے،مالی بدحالی کے شکار ادارے کی قیمتی اراضی کی بڑے پیمانے پر بندر بانٹ کے منصوبے پر ادارے کے سینئر افسران میں سخت تشویش پائی جارہی ہے۔

انتہائی باوثوق ذرائع کے مطابق ادارہ ترقیات کراچی کی اربوں مالیت کی قیمتی اراضیوں پر قبضوں کا سلسلہ ایک مرتبہ پھر تیز ہوگیا ہے،ذرائع کا کہنا ہے کہ کلفٹن بلاک 4میں واقع دو غیر الاٹ شدہ کمرشل پلاٹ جس میں پلاٹ نمبرBC3 پر مبینہ جعلسازی سے قبضے کا آغاز ہوچکا ہے ۔

ذرائع ابلاغ میں نشاندہی کے باوجود کے ڈی اے حکام پراسرار خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں۔اسی طرح بی سی ون پر بھی قبضے کی تیاریاں کی جارہی ہیں ۔

واضح رہے کہ مذکورہ پلاٹوں کے حوالے سے سابق ایکسئن کلفٹن اہم نوٹ شیٹ حکام اور تحقیقاتی اداروں کو ارسال کرچکے ہیں جس میں واضح کیا گیا تھا کہ مذکورہ دونوں پلاٹ غیر الاٹ شدہ ہیں ان کو نیلام کیا جائے کیونکہ لینڈ مافیا جعلسازی سے انہیں ہڑپ کرنے کی منصوبہ بندی کررہے ہیں ،نشاندہی کے باوجود حکام نے تاحال کوئی نوٹس نہیں لیا ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ کلفٹن بلاک4 میں واقع مذکورہ دوکمرشل پلاٹوں کے ساتھ ساتھ اب کئی ارب مالیت کی تقریبا 4ایکڑرقبے پر محیط اراضی کو کے ڈی اے آفیسرز سوسائٹی کے نام پر ٹھکانے لگانے کی تیاریاں کی جارہی ہیں۔

نیشنل اسٹیڈیم سے ملحقہ مذکورہ قیمتی اراضی کے حوالے سے ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ مذکورہ قیمتی اراضی کو سابق شہری حکومت کے دور میں ٹھکانے لگانے کی کوشش کی گئی تھی اور اہم عہدوں پر موجود افسران کو قیمتی پلاٹوں سے نوازا گیا تھا تاہم جعلسازی سے پلاٹوں پر بندر بانٹ پر اعلیٰ تحقیقاتی ادارے کے نوٹس لئے جانے پر یہ پلاٹ منسوخ کرکے کے ڈی اے کے حوالے کردیئے گئے تھے۔

سندھ حکومت کے بعض اہم افراد بھی مبینہ طور پر پلاٹوں کی بندر بانٹ کے منصوبے میں ملوث ہیں،اس سلسلے میں اہم عہدوں پر من پسند افسران کی تعیناتیوں کا سلسلہ شروع کردیا گیا ہے۔

واضح رہے کہ عبدالقدیر منگی کو چند روز قبل ہی ممبر ایڈ منسٹریشن کے اہم عہدے پر تعینات کیا جاچکا ہے جبکہ دوسرے اہم ترین عہدے پر سندھ حکومت کے چہیتے متنازعہ افسر شمس صدیقی کو ڈائریکٹر اسٹیٹ انفورسمنٹ کے عہدے سے نواز دیا گیا ہے،جو انہدامی کارروائی اور قبضہ چھڑانے کے ذمہ دار ہیں اور بندر بانٹ کیے گئے پلاٹوں کی پردہ پوشی کرنے کی ذمہ داری نبھا رہے ہیں۔

کراچی کی قیمتی ترین اراضی کلفٹن اور نیشنل اسٹیڈیم کے عقب میں موجود ہے جسے ٹھکانے لگانے کے لیے لاک ڈاؤن میں نہ صرف دفاتر کھلوائے گئے بلکہ اسی دوران ان قیمتی پلاٹوں پر قبضے بھی کروا دیے گئے ہیں۔

مزید پڑھیں:کراچی ائیرپورٹ کےقریب بلندعمارتیں مستقبل میں بھی کسی حادثے کا باعث کا بن سکتی ہیں

شہریوں نے چیف جسٹس آف پاکستان سے اپیل کی ہے کہ وہ فوری مداخلت کریں اور اس قبضے میں ملوث افسران کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔

Related Posts