جامعہ کراچی نے 30طعام گاہیں بند رکھ کر سفارش پر 40لاکھ کی نادہندہ طعام گاہ کھول دی

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

جامعہ کراچی نے درجنوں کینٹین بند رکھ کر 40 لاکھ کی نادہندہ کینٹین کو سفارش پر کھول دیا
جامعہ کراچی نے درجنوں کینٹین بند رکھ کر 40 لاکھ کی نادہندہ کینٹین کو سفارش پر کھول دیا

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

کراچی: جامعہ کراچی کی تاریخ میں دوسری قائم مقام بننے والی وائس چانسلر ڈاکٹر ناصرہ خاتون کی زیر صدارت منعقدہ اجلاس میں مرکزی طعام گاہ کھولنے کا فیصلہ کیا گیا ہے جس کے لیئے طعام گاہ کے ٹھیکیدارسلیم آرائیں نے 40 لاکھ روپے کی واجب الادا رقم میں سے بعض رقم دینے کی حامی بھری ہے۔ مرکزی طعام گاہ کھولنے سے جہاں دیگر کرایہ دینے والے طعام گاہ مالکان کی حق تلفی ہو گی وہیں پر 40 ہزار طلبہ کا بوجھ ایک کینٹین پر پڑے گا۔

جامعہ کے جاری کردہ اعلامیہ کے مطابق طلبہ کی سہولت کے پیش نظر شٹل سروس کے ذریعے طلبہ کو ان کے متعلقہ شعبہ جات تک پہنچانے اور واپس لے کر آنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

جامعہ کراچی کی قائم مقام وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر ناصرہ خاتون کی زیر صدارت جمعرات کے روز وائس چانسلر سیکریٹریٹ جامعہ کراچی میں ایک اجلاس منعقد ہوا،جس میں رجسٹرار پروفیسر ڈاکٹر مقصود علی انصاری، انچار شعبہ ٹرانسپورٹ ڈاکٹر قدیر محمد علی اور ناظم مالیات طارق کلیم نے شرکت کی۔

اجلاس میں طے پایا کہ مارننگ وایوننگ کے طلبہ کی سہولت کے پیش نظر 13 مئی سے فی الوقت مرکزی طعام گاہ کوکھول دیا جائے گا اور چار موبائل ٹک شاپ جامعہ کراچی کے مختلف مقامات جس میں فیکلٹی آف فارمیسی، ڈاکٹر محمود حسین لائبریری، اپلائیڈ کیمسٹری اور یو بی ایل بینک شامل ہیں پر کھڑی کی جائیں گی۔

علاہ ازیں جامعہ کراچی میں حال ہی میں آنے والی نئی بسوں کے ذریعے طلبا و طالبات کو جامعہ کراچی کے داخلی دروازوں سے ان کے متعلقہ شعبہ جات تک پہنچانے اور واپس لے کر آنے کی سہولت فراہم کی جائے گی۔

واضح رہے کہ طلباء کو پہلے سے ہی بلا معاوضہ شٹل سروس کی سہولت فراہم کی جارہی ہے اور ان شٹل کی تعداد میں مزید اضافہ کر دیا گیا ہے۔

معلوم ہوا ہے کہ جامعہ کراچی کے مذکورہ مرکزی کینٹین کا ٹھیکہ 2017 سے سلیم آرائیں نامی ٹھیکہ دار کے پاس ہے، اسٹیٹ آفیسر نورین شارق کی جانب سے تیارکردہ اشتہار میں ابہام کی وجہ سے جامعہ کو طعام گاہوں کے ٹھیکوں میں نقصان کا سامنا کرنا پڑرہا ہے، مرکزی کینٹین کا ٹھیکہ ایک لاکھ 99ہزار میں دیا گیا تھا،ہر سال 10فیصد بڑھانے کے بجائے ہر دوسال بعد10فیصد بڑھانے کی انوکھی شرط رکھی گئی تھی۔

مذکورہ ٹھیکیدارکو دیگر کے بر عکس بجلی، گیس اور پانی بھی جامعہ کی جانب سے مفت کا میسر ہے جبکہ پاکستان میں کسی بھی جگہ پرسرکاری ٹھیکوں کی صورت میں پانی، بجلی، گیس کے استعمال کے لئے علیحدہ سے میٹرو ں کی تنصیب کی جاتی ہے، جس کے باوجود کوڈ اور تعطیلات کی آڑ میں کرایہ ادانہیں کیا جب کہ جامعہ کی جانب سے کوڈ 19کی وجہ سے 10ماہ کرائے کی چھوٹ بھی دی گئی تھی،جس کے باوجود مذکورہ مرکزی طعام گاہ کے ٹھیکیدار سلیم آرائیں نے40 لاکھ روپے جامعہ کو ادا نہیں کئے ہیں،جس کے باوجود انہیں ایک بار پھرباقی طعام گاہوں کو چھوڑ کر نوازا جارہا ہے۔

اس حوالے سے مرکزی طعام گاہ کے مالک سلیم آرائیں نے رابطہ کرنے پر بتایا کہ میں نے طعام گاہ کا کرایہ اس لئے نہیں دیا کہ جامعہ میں تعلیمی سیشن کے اختتام پرہونے والی چھٹیوں اور کوڈ 19کے دو سالوں میں طعام گاہ بند رہی ہے، جس کی وجہ میں نے کرایہ نہیں دیا، جب کہ دوسری یہ وجہ بھی ہے کہ میں نے طعام گاہ کو تیار کرنے میں 68لاکھ روپے از خود لگائے ہیں، اب جامعہ کی انتظامیہ سے بات ہوئی ہے اور واجب الادا رقم دینے کے لئے جامعہ نے ریکارڈ کے ہمراہ مجھے بھی بلایا ہے اور میں تعطیلات اور کوڈ 19کے دنوں کا کرایہ منہا کرکے باقی کی کچھ رقم ابھی اور باقی بعد میں ادا کروں گا۔

حیرت انگیز طو رپر جامعہ کے متنازعہ اشتہار اور فائدہ مند معاہدے کے باوجود بھی مذکورہ 40لاکھ کے نادہندہ ٹھیکیدار کو ہی اجازت دی جارہی ہے جب کہ دیگر 30کینٹینوں کے مالکان جو مسلسل کرایہ پانی، بجلی اور گیس کے بل بھی دے رہے ہیں، ان کو کھولنے کی اجازت نہیں دی جارہی ہے، جس کی وجہ سے جامعہ میں 40ہزار کے لگ بھگ طلبا کا دباؤ اسی طعام گاہ پر آئے گا، جہاں چیزیں مہنگی اور رش بڑھنے کا بھی اندیشہ ہے۔

مذکورہ ٹھیکیدار کے بارے میں یہ بھی واضح رہے کہ وہ بیک وقت ڈاؤ میڈیکل سمیت اندرون سندھ کی متعدد جامعات میں کینٹین اور بسوں کے ٹھیکہ دار بھی ہیں۔ اس حوالے سے موقف جاننے کیلئے جامعہ کی اسٹیٹ آفیسر نورین شارق سے رابطہ کیا گیا تاہم انہوں نے فون ریسیو نہیں کیا۔تاہم ان کا موقف معلوم ہونے شائع کر دیا جائے گا۔

واضح رہے کہ جامعہ کراچی 30 طعام گاہوں میں سے چند کو کھولنے کے بجائے بغیر سیپرا پیپرا رولز کے بغیر ہی 4 ٹک شاپ کھولنے کا فیصلہ کیا گیا ہے،اس حوالے سے میرین ریفرنس کلیکشن سینٹر کے متنازعہ ڈائریکٹر اور انچارج ٹرانسپورٹ قدیر محمد علی کے ماتحت یہ موبائل ٹک شاپ چلیں گی۔ جس کے لیئے کوئی کمیٹی نہیں بنائی گئی ہے اور اس موبائل ٹک شاپ پر رکھا گیا سامان کس اکاؤنٹ سے خریدا جائے گااور رقم کس اکاؤنٹ میں جمع کرائی جائیگی، اس حوالے سے مکمل خاموشی ہے۔

Related Posts