13 جولائی1931ء کا دن جموں و کشمیر کی تاریخ کاسنگ میل ہے، صدر آزاد کشمیر

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

مظفرآباد:آزاد جموں و کشمیر کے صدر سردار مسعود خان نے کہا ہے کہ 13 جولائی1931ء کا دن ریاست جموں و کشمیر کی تاریخ کا وہ سنگ میل ہے جس نے ریاست کے مسلمانوں کو ظلم و استبداد کے خلاف جدوجہد کا نیا جذبہ اور ولولہ ہی نہیں دیا بلکہ اُنہیں ایک نظریاتی سمت اور جہت بھی دی جس پر چلتے ہوئے اُنہوں نے سولہ سال بعد ریاست کے ایک حصہ کو ڈوگرہ مہاراجہ کے ظلم و استبداد سے نجات دلائی۔

آج کے دن ریاست کے مقبوضہ حصہ کی آزادی کے لیے جدوجہد شروع کی جو آج بھی جاری ہے۔ 13 جولائی یوم شہدا کشمیر کے موقع پر اپنے پیغام میں صدر آزاد کشمیر نے کہا کہ یہ دن تحریک آزادی کشمیر کا ایک خونچکاں باب ہے کیونکہ 1931 تحریک آزادی کشمیر کی تاریخ کا وہ سال ہے جب ڈوگرہ مہاراجہ کا ظلم و استبداد اپنی انتہا کو پہنچ گیا تھا۔

مسلمانوں کا استحصال کیا جار رہا تھا۔ مساجد اور قرآن پاک کی بے حرمتی کی جا رہی تھی۔ زمین کی ملکیت پر پابندی لگا دی گئی تھی حکومت کی طرف سے نافذ کردہ محصولات آسمان کی بلندیوں کو چھو رہے تھے اور حکمرانوں کی جبر و ظلم کے خلاف کسی بھی شخص کو آوا ز اُٹھانے کی اجازت نہیں تھی۔

اس پس منظر میں 25 جون کو ایک جری شخص عبدالقدیر خان نے سرینگر میں خانقاہ معلی کے مقام پر ینگ مسلم ایسوسی ایشن سے خطاب کرتے ہوئے حاضرین سے کہا کہ وہ مہاراجہ کی دہشت اور بربریت کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوں اور اُن کے پاس اگر ہتھیار نہیں ہیں تو ڈنڈوں اور پتھروں سے لڑ یں۔

عبدالقدیر خان نے مہاراجہ کے شیر گڑھی محل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس نا انصافی، دہشت اور غلام کی علامت عمارت کو گر ا دو۔ صدر سردار مسعود خان نے کہا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ عبدالقدیر کی آواز امریکہ کی جنگ آزادی کے ہیرو پیٹرک ہنری کی آواز سے مختلف نہ تھی جس نے 22 مارچ 1775 کو امریکہ کے لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ غلامی سے نجات کے لیے یا مجھے آزادی دو یا موت دے دو۔

عبدالقدیر اُسی دن گرفتار ہوگیا تھا لیکن اُس کی آواز، اُس کی گرفتاری اور اُس کے مقدمے کی سماعت نے خطہ کشمیر میں ایک انقلاب برپا کر دیا۔ لوگ مشتعل ہو گئے اور اُن میں غم و غصے کی ایک لہردوڑ گئی۔ 13 جولائی کو جیل میں عبدالقدیر کے خلاف غداری کے مقدمہ کی سماعت جاری تھی اور جیل کے سامنے ایک ہجوم موجود تھا۔

جب نماز کا وقت آیا تو ایک شخص آذان کے لیے اُٹھ کھڑا ہوا اور اُس سے پہلے کہ وہ آذان مکمل کرتا ڈوگرہ پولیس نے اُسے گولی مار کر بے دردی سے شہید کر دیا۔ اس شہادت کے بعد یکے بعد دیگر اکیس مسلمانوں اُٹھے پولیس کی فائرنگ مسلسل جاری تھی لیکن ان اکیس مسلمانوں نے ایک ایک کر کے شہادت کا جام نوش کیا اور اذان کو مکمل کیا۔

آزادی کے لیے اس شجاعت اور جذبے کی دنیا کی کسی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ 1931 کے دوران کشمیری ڈوگرہ فوج کی دہشت گردی کے خلاف مسلسل مذاحمت کرتے رہے اور بہادر کشمیری ننگے سینے تانے سنگینوں اور گولیوں کا سامنا کرتے رہے اور شہادتیں پیش کرتے رہے۔

مشہور کشمیری مورخ پریم ناتھ بزار نے کہا کہ شہدا کے پو سٹ ماٹم کے دوران یہ بات سامنے آئی اُن میں کسی ایک کی پیٹھ پر گولی نہیں لگی بلکہ سب نے سینے پر گولیاں کھائیں۔ اہل جموں و کشمیر کی جدوجہد آج بھی جاری ہے اور بھارتی جبر و استبداد کے خلاف کشمیری مسلمان آج بھی قربانیاں دے رہے ہیں۔

دہلی کے موجود حکمران ماضی کے مہاراجہ ہری سنگھ سے بھی بد تر ہیں کیونکہ مہاراجہ ایک ڈکٹیٹر تھا۔ لیکن یہ جمہوریت کا نام لے کر استعماری آقا بنے ہوئے ہیں جنہوں نے خطہ جموں و کشمیر سے اسلام اور مسلمانوں کا نام و نشان مٹانے کی قسم کھا رکھی ہے اور وہ اپنے نا پاک منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے کے لیے مسلسل اقدامات کر رہے ہیں۔