عزیر بلوچ کی جے آئی ٹی رپورٹ، تہلکہ خیز انکشافات اور لسانی سیاست کے چشم کشا حقائق

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

عزیر بلوچ کی جے آئی ٹی رپورٹ، تہلکہ خیز انکشافات اور لسانی سیاست کے چشم کشا حقائق
عزیر بلوچ کی جے آئی ٹی رپورٹ، تہلکہ خیز انکشافات اور لسانی سیاست کے چشم کشا حقائق

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

آرمی کورٹ سے سزا پانے والے لیاری گینگ وار کے سرغنہ عزیر بلوچ کی جے آئی ٹی رپورٹ گزشتہ روز منظرِ عام پر آئی جس میں ہونے والے تہلکہ خیز انکشافات اور لسانیت کے نام پر عوام کو خاک و خون میں نہلا دینے والی سیاست کے چشم کشا حقائق منظرِ عام پر آگئے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ عزیر بلوچ کون ہے؟ اس کا پیپلز پارٹی سے کیا تعلق ہے؟ وفاقی وزیر برائے بحری امور  علی زیدی نے قومی اسمبلی میں جے آئی ٹی رپورٹ کیوں پڑھ کر سنائی اور پیپلز پارٹی رہنماؤں  نے سابق صدر آصف علی زرداری، ان کی ہمشیرہ فریال تالپور اور دیگر سیاسی رہنماؤں پر لگائے گئے الزامات غلط کیوں نہ ثابت کیے؟

آئیے عزیر بلوچ کی جے آئی ٹی رپورٹ سے لے کر اس کی ذاتی معلومات تک تمام تر حقائق کا تجزیہ کرتے ہیں اور ان تمام سوالات کے جوابات تلاش کرتے ہیں جو موجودہ ملکی تاریخ کے بڑے اسکینڈلز میں سے ایک ہے جس نے لسانی سیاست کو بے نقاب کردیا۔

عزیر بلوچ کون؟

کراچی کے علاقے لیاری میں جرائم کی دنیا کے بے تاج بادشاہ کو عزیر بلوچ کہتے ہیں جسے بادشاہ بنانے والے وہ سیاستدان تھے جو لسانیت کے ذریعے عوام الناس کو خون میں نہلا رہے تھے اور قتل و غارت کا بازار گرم کر رہے تھے۔

زندگی کے آغاز میں عزیر بلوچ کا جرم و سزا سے کوئی تعلق نہیں تھا کیونکہ وہ لیاری جنرل ہسپتال کا ایک معمولی ورڈ بوائے تھا جس کا باپ اسے کے پی ٹی میں فٹبالر بنوانا چاہتا تھا۔

سیاسی رہنما کے طور پر عزیر بلوچ 2001ء کے انتخابات میں لیاری کا ناظم بننے کی کوشش کی تاہم پیپلز پارٹی کے کارکن حبیب نے انہیں ہرا دیا۔ ٹرانسپورٹر فیضو ماما کے بیٹے عزیر نے 2003ء میں والد کے قتل کے بعد جرائم شروع کیے۔

وہ کچھ اور نہیں بلکہ اپنے والد کے قتل کا بدلہ چاہتا تھا۔ ان دنوں عبدالرحمٰن اور ارشد پپو کے نام سے دو گینگ موجود تھے جن کے درمیان لیاری میں زمین اور منشیات پر گینگ وار چل رہی تھی۔

عبدالرحمٰن ڈکیت نے عزیر بلوچ کو اپنے گینگ میں شامل کیا۔ بعد ازاں ڈکیت پولیس مقابلے میں مارا گیا اور عزیر گینگ کا سربراہ بن بیٹھا۔ 2012ء تک پیپلز پارٹی عزیر بلوچ کو تحفظ فراہم کرتی رہی لیکن بعد میں تعلقات میں دراڑ پڑگئی۔

عزیر بلوچ نے لیاری سے پیپلز پارٹی کے ایک رہنما اویس مظفر ٹپی کو انتخابات میں حصہ لینے سے روکا جس کے بعد پیپلز پارٹی اور امن کمیٹی کے تعلقات خراب ہو گئے۔ اپریل 2012ء میں سیاسی آپریشن کیا گیا۔

آپریشن ناکام رہا اور عزیر بلوچ کے مطالبات پیپلز پارٹی کو تسلیم کرنا پڑے۔ عزیر کا مطالبہ تھا کہ 2013ء کے انتخابات میرے میرے منتخب امیدواروں کو پیپلز پارٹی ٹکٹ دے۔ اس وقت عزیر بلوچ 20 سے زائد مقدمات میں مطلوب رہا۔

وفاقی وزیر علی زیدی کی تقریر اور جے آئی ٹی

عزیر بلوچ کی جے آئی ٹی منظرِ عام پر لانے کا مطالبہ سب سے پہلے تحریکِ انصاف نے کیا اور وفاقی وزیر برائے بحری امور علی حیدر زیدی وہ پہلے سیاسی رہنما ہیں جنہوں نے جے آئی ٹی رپورٹ منظرِ عام پر لانے کیلئے قانونی جنگ لڑی۔

گزشتہ ماہ کے آخری روز یعنی 30 جون کو قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر علی حیدر زیدی نے کہا کہ عزیر بلوچ نے اپنی مرضی سے جرائم نہیں کیے بلکہ انہیں پیپلز پارٹی سے احکامات اور سیاسی اثر رسوخ کے ساتھ ساتھ حمایت بھی حاصل تھی۔

قومی اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے وفاقی وزیر علی زیدی نے کہا کہ میں نے جے آئی ٹی رپورٹ نہیں لکھی اور نہ ہی اس پر میرے دستخط ہیں۔ اس پر دفاعی تحقیقاتی ایجنسی انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی)، ایم آئی، رینجرز اور سی آئی ڈی سمیت دیگر اہم اداروں کے دستخط ہیں۔

وفاقی وزیر علی حیدر زیدی نے کہا کہ عزیر بلوچ شروع ہی سے پیپلز پارٹی کارکن تھا، اس کے اہلِ خانہ پی پی پی کے اراکین تھے اور جرم کرنے کیلئے احکامات اسے پی پی پی سے ملے۔ آصف علی زرداری ہدایات جاری کرتے تھے۔ اسلحہ اور بھاری رقمیں دی جاتی تھیں۔

سن 2013ء کا حوالہ دیتے ہوئے علی زیدی نے کہا کہ پی پی پی نے جس سیاسی رہنما کو ٹکٹ دئیے سب نے اقرار کیا کہ عزیر بلوچ ہمارا لیڈر ہے۔ اسپیکر سندھ اسمبلی آغا سراج درانی کے احکامات پر لیاری کا ایڈمنسٹریٹر تعینات ہوا۔ لیاری کا ایڈمن پی پی پی کو 20 لاکھ اور کروڑوں فریال تالپور کو بھتہ دیتا تھا۔ 

پیپلز پارٹی پر پی ٹی آئی کے الزامات

تحریکِ انصاف میں وفاقی وزیر علی زیدی اکیلے نہیں ہیں جو پیپلز پارٹی پر الزامات عائد کرتے ہیں بلکہ پی ٹی آئی کی تمام تر مرکزی و صوبائی قیادتیں اور علاقائی سیاستدان بھی پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت کو صوبے کے تمام تر مسائل کی جڑ اور سندھ کی تباہی کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں۔

آج سے 2 روز قبل وفاقی وزیرِ مواصلات مراد سعید نے کہا کہ چیئرمین پیپلز پارٹی نے مزدوروں کے حقوق چھینے اور جعلی اکاؤنٹس کا جال بُن دیا۔ پیپلز پارٹی نے روشنیوں کے شہر کراچی کو عزیر بلوچوں کے ساتھ ساتھ راؤ انواروں کے رحم و کرم پر چھوڑ رکھا ہے۔

وزیرِ مواصلات مراد سعید نے کہا کہ غریب کے پاس پیپلز پارٹی نے کچھ نہیں چھوڑا اور اب وہ غریبوں کے حقوق چھین کر غریبوں کو واپس کرنے کے نعرے لگانے میں مصروف ہے۔انہوں نے حرام کا مال بچانے کیلئے سندھ اور پنجاب کیلئے لکیریں کھینچنے کو شرمناک عمل قرار دیا۔ 

جے آئی ٹی رپورٹ کیا ہے؟

لیاری گینگ وار کے سرغنہ عزیر بلوچ نے دورانِ تفتیش گینگ وار تنازعات اور لسانی جھگڑوں کے دوران کم وبیش 198 افراد کا قتل تسلیم کیا۔ 7 ایس ایچ اوز سیاسی اثر رسوخ سے تعینات کرائے۔ لیاری میں ٹی پی او اقبال بھٹی کو لگوایا جبکہ ایڈمنسٹریٹر لیاری محمد رئیسی بھی عزیر بلوچ کے اثر رسوخ پر تعینات ہوا۔

یہی نہیں، بلکہ جب عزیر بلوچ بیرونِ ملک فرار ہوا تو اسے لاکھوں روپے دبئی میں ہر ماہ  بھتہ پہنچایا جاتا رہا۔ عزیر بلوچ نے پولیس اور رینجرز کے متعدد اہلکاروں کو بھی قتل کرنے کا اعتراف کیا ہے۔ عزیر بلوچ کے اثاثے پاکستان کے ساتھ ساتھ دبئی میں بھی موجود ہیں۔

جے آئی ٹی رپورٹ کے مطابق 20 سے زائد دوست اور 16 رکنی اسٹاف نے بھی عزیر بلوچ کا ساتھ دیا۔ عزیر بلوچ کی گرفتاری 2006ء میں ٹھٹھہ سے عمل میں لائی گئی۔ اس پر 7 کیسز چلے اور وہ 10 ماہ بعد رہا ہوگیا۔ عزیر بلوچ نے 10 سے زائد کارندوں کو ایران سمیت دیگر ممالک بھی مختلف مقاصد سے بھیجا۔

رپورٹ کے مطابق 8 سے زائد پولیس افسران ایسے ہیں جنہیں عزیر بلوچ نے تعینات کروایا، سابق ایڈمن لیاری 2009ء کے دوران ہر ماہ 2 لاکھ روپے بھتہ عزیر بلوچ کو بھیجتا رہا۔ عزیر بلوچ مال بردار ٹرکوں کو لوٹنے میں بھی ملوث رہا۔ مال فروخت کردیا جاتا اور عزیر بلوچ کو 15 لاکھ روپے حصہ ملتا۔

گینگ وار کیلئے اسلحہ لالہ توکل اور سلیم پٹھان سے خریدا جاتا رہا۔ عزیر بلوچ نے پیدائشی سرٹیفیکیٹ، پاسپورٹ اور شناختی کارڈ ایران سے حاصل کرنے کے کیلئے عائشہ نامی خاتون کا سہارا اور معاونت لی۔ 

کیا جے آئی ٹی کو حرفِ حق سمجھا جائے؟ 

حقیقت یہ ہے کہ جے آئی ٹی رپورٹ سمیت کوئی بھی رپورٹ حرفِ آخر قرار نہیں دی جاسکتی۔ یہ بھی عین ممکن ہے کہ سچ ہونے کے باوجود جے آئی ٹی رپورٹ کو حکام کسی مصلحت کے تحت مسترد کردیں، تاہم وفاقی وزیر علی زیدی کے اوپر دئیے گئے بیان میں ایک بات سب سے اہم ہے۔

جے آئی ٹی رپورٹ پر آئی ایس آئی، ایم آئی اور دیگر اداروں کے دستخط موجود ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ یہ رپورٹ کتنی مستند ہے جس کے تحت ذمہ دار قرار دئیے جانے والے تمام عناصر کے خلاف کارروائی ضروری ہے۔

تقسیم کرو اور حکومت کرو کا اصول

پیپلز پارٹی کے کہنے پر یا اپنی مرضی سے عزیر بلوچ نے تقریباً 198 افراد کے قتل کا اعتراف کیا ہے جو صرف قتلِ ناحق نہیں بلکہ ان کی اپنی ایک سیاسی اہمیت بھی ہے جسے فساد فی الارض بھی قرار دیاجاسکتا ہے۔

اگر جے آئی ٹی میں لگائے گئے تمام تر الزامات درست ہیں تو حقیقت یہ ہے کہ سیاسی مقاصد کے تحت پیپلز پارٹی نے وطنِ عزیز پاکستان پر بھی برطانوی راج میں نافذ اصول تقسیم کرو اور حکومت کرو نافذ کرنے کی کوشش کی۔

تقسیم کرو اور حکومت کرو کا فارمولہ انگریز نے تو اِس طرح اپنایا کہ انہوں نے برصغیر میں مختلف مفادات کی بنیاد پر تقسیم در تقسیم پیدا کی اور جب اتحاد کا شیرازہ بکھر گیا تو خود حکمران بن کر برصغیر پر مسلط ہو گئے۔

دوسری جانب پیپلز پارٹی سمیت کوئی بھی دیگر سیاسی جماعت جو پاکستان یا کسی اور ملک میں تقسیم کرو اور حکومت کرو کا اصول اپنانا چاہتی ہے، وہ لوگوں کو مذہبی اور لسانی بنیادوں پر تقسیم کرتی ہے۔

عزیر بلوچ کے ساتھ کیا ہونا چاہئے؟

حقیقتِ حال یہ ہے کہ عزیر بلوچ نے ملک میں حکومتی نظام کو اپنی مرضی سے متاثر کیا۔ پیپلز پارٹی نے عزیر بلوچ کو اور عزیر بلوچ نے پیپلز پارٹی کو اپنے مفادات کیلئے استعمال کیا۔

فساد فی الارض کے معاملات اپنی جگہ ہیں کیونکہ فرقہ واریت، لسانی فسادات اور اُدھر تم، اِدھر ہم کے نعرے لگا کر تقسیم در تقسیم پیدا کی گئی جس سے عوام الناس بڑے پیمانے پر متاثر ہوئے۔ 

گینگ وار سرغنہ عزیر بلوچ کو قاتل کے طور پر صرف سزائے موت دی جاسکتی ہے، تاہم عزیر بلوچ کے جرائم سزائے موت سے کہیں بڑی سزا کا مطالبہ کرتے نظر آتے ہیں۔

Related Posts