بریسٹ کینسر کے مقابلے کیلئے خواتین کیساتھ مردوں کو آگہی دینا بھی ضروری ہے، ڈاکٹر روفینا سومرور

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

پاکستان میں ہر سال نوے ہزار خواتین بریسٹ کینسر یعنی چھاتی کے سرطان کے مہلک اور جان لیوا مرض میں مبتلا ہوتے ہیں، یہ ایک ایسا مرض ہے جس پر مناسب آگہی اور علم و شعور نہ ہونے کی وجہ سے عموما بات نہیں کی جاتی۔ یہی وجہ ہے کہ یہ بیماری پاکستانی معاشرے میں ایک خاموش قاتل کی طرح اپنا کام کر رہی ہے اور ہر سال ہزاروں خواتین کو اپنے پنجوں میں جکڑ لیتی ہے۔

اس بیماری کی سنگینی اور اس کے متعلق مناسب آگہی عام نہ ہونے کی وجہ سے ماہرین صحت نے اکتوبر کو بریسٹ کینسر کے حوالے سے آگہی پھیلانے کا خصوصی مہینہ متعین کیا ہے، اس مہینے میں مختلف ہیلتھ پلیٹ فارمز پر چھاتی کے سرطان کے حوالے سے معلومات اور رہنمائی فراہم کی جاتی ہے۔ ایم ایم نیوز نے بھی بریسٹ کینسر کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے لیاقت نیشنل اسپتال کراچی کے شعبہ جنرل سرجری کی ہیڈ محترمہ ڈاکٹر روفینا سومرو سے خصوصی بات چیت کی ہے، جس کا احوال مفاد عامہ کی خاطر نذر قارئین کی جا رہی ہے۔

ایم ایم نیوز: پاکستان میں چھاتی کا سرطان ایک بڑے خطرے کے طور پر ابھر رہا ہے، کیسز میں اضافہ ہو رہا ہے، کیا آپ سمجھتی ہیں کہ آج کے اس دور میں بھی اس حوالے سے آگہی اور شعور کی کمی اس کی بنیادی وجہ ہے؟
ڈاکٹر روفینا سومرو: جی ہاں یہ ایک اہم وجہ ہے، مسئلہ یہ ہے کہ آگہی نہ ہونے کی وجہ سے ہمارے یہاں اس بیماری کی جلد تشخیص نہیں ہوپاتی، یہ مرض جب خوب جمنے کے بعد اپنا احساس دلاتا ہے اور اگلے اسٹیج پر پہنچ جاتا ہے تب جاکر علاج کیلئے دوڑ دھوپ کی جاتی ہے، سماج میں کچھ مخصوص تصورات بھی اس حوالے سے اہم رکاوٹ ہیں، جن کے ہوتے ہوئے خواتین اپنی بیماری کے حوالے سے حساس نہیں ہو پاتیں، ہچکچاہٹ کا شکار رہتی ہیں، ابتدا میں ہی اس کا اظہار نہیں کر پاتیں، یہ بھی ایک وجہ ہے کہ عموما چھاتی میں گٹھلی کا پتا چلنے کے باوجود بھی صرف اس لیے ڈاکٹر سے رجوع نہیں کیا جاتا کہ درد نہیں ہو رہا۔ درد ہو بھی تو پتا نہیں ہوتا کہ یہ کینسر ہے یا کچھ اور۔ کینسر کا احساس ہو بھی جائے تو مسئلہ کہاں آسانی سے حل ہوتا ہے، کینسر کا علاج کس قدر مہنگا ہے، ہر شخص افورڈ نہیں کر سکتا، سہولتیں عام اور ہر شخص کی دسترس میں نہیں ہیں۔ ظاہر ہے یہ تمام باتیں اور رکاوٹیں رہتی ہیں تو پھر ڈیتھ ریٹ اور موت کی شرح بڑھ جاتی ہے۔

ایم ایم نیوز: آپ کی نظر میں پاکستان میں بریسٹ کینسر کیلئے خاص رسک فیکٹر کیا ہیں، کہیں ایسا تو نہیں کہ کوئی خاص پروڈکٹ جو عام استعمال میں ہو اور وہی اس مہلک مرض کا اہم سبب بن رہا ہو؟

ڈاکٹر روفینا سومرو: پروڈکٹس تو اس مرض کی کوئی خاص وجہ اور سبب نہیں ہیں، ہاں اس کے رسک فیکٹر موجود ہیں، جن میں سے کچھ ایسے ہیں کہ جن سے بچنا ممکن ہی نہیں ہے، مثلا عورت ہونا ایک خاص رسک فیکٹر ہے، جس سے بچنا ممکن نہیں کہ عورت یا مرد بننا کسی کے اختیار میں ہی نہیں۔ اسی طرح ماہواری میں عدم توازن بھی ایک قدرتی رسک فیکٹر ہے، اس سے بچنا بھی کسی کے ہاتھ میں نہیں۔ کسی کے خاندان میں یہ بیماری ہوچکی ہو، تو بھی یہ ایک ایسا رسک فیکٹر ہے جس سے نہیں بچا جاسکتا، کیوں کہ فیملی بدلنا یا جینڈر چینج کرنا ہمارے اختیار میں نہیں ہے۔ اس کے علاوہ کچھ رسک فیکٹر ایسے ہیں جن سے ہم بچ سکتے ہیں، مثال کے طور پر شادی میں تاخیر ہونے کے بعد پہلا حمل بھی تاخیر سے ہوجائے تو اس مرض کا رسک بڑھ جاتا ہے، اس سے بچنے کی تدبیر سوچ سمجھ کر کی جا سکتی ہے۔ مائیں اپنے شیرخوار بچوں کو دو سال تک پوری فیڈنگ کریں، اس سے احتراز کی صورت میں اس مرض کا خطرہ ہوسکتا ہے اور اس سے بچنا ظاہر ہے کہ ہمارے ہاتھ میں ہے۔ موٹاپا بھی ایسا رسک فیکٹر ہے جس سے بچ کر اس بیماری کے خطرے کو کم کیا جاسکتا ہے۔ اسی طرح ایکسرسائز، مرغن غذاؤں سے پرہیز کے ذریعے بھی بریسٹ کینسر کے خطرے کو دور کیا جا سکتا ہے۔ 

بریسٹ کینسر کے خطرے کو دور کرنے کیلئے خواتین صحت مند اور متوازن غذا کھائیں، واک کریں، کم از کم ہفتے میں چار گھنٹے کی واک کریں، فروٹ اور سلاد کا استعمال کریں۔ اسی طرح نشے سے بچیں، الکوحل، تمباکو وغیرہ کا استعمال نہ کرکے بھی اس بیماری کے خطرے کو کم کیا جا سکتا ہے۔ تاہم کوئی پروڈکٹ بریسٹ کینسر کا سبب بنتا ہے نہ ہی اس کے رسک کو کم کرتا ہے۔ 

ایم ایم نیوز: ڈاکٹر صاحبہ ویسے تو ہر خاتون کو اپنا چیک اپ کراتے رہنا چاہیے، مگر اگر کوئی چیک اپ نہیں کروا رہا تو ایسے میں ایسی کونسی علامت ہو سکتی ہے جس کے ظاہر ہونے پر آپ کہیں گی کہ متعلقہ خاتون کو فوری طور پر اپنا چیک اپ کروانا چاہیے؟

ڈاکٹر روفینا سومرو: ہر عورت کو شعور میں آنے کے ساتھ ہی اپنا میڈیکل ایگزامینیشن کرتے رہنا چاہیے اور اپنی جسمانی ساخت میں در آنے والی تبدیلیوں پر خاص نظر رکھنا چاہئے، جیسے ہی کچھ تبدیلی محسوس ہو تو فوری طور پر حساس ہونا چاہیے اور اسے چیک کرنا چاہئے کہ معاملہ کیا ہے۔ نوے فیصد گٹھلیاں بے ضرر ہوتی ہیں۔ کچھ لوگ اس قدر حساس ہوتے ہیں کہ ذرا بھی گٹھلی سر اٹھائے تو فورا پریشان ہوکر ڈاکٹر کے پاس پہنچ جاتے ہیں، ایسے بہت سے مریضوں کو ہم منع کرتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ یہ کینسر کی علامت نہیں ہے، جبکہ کچھ کو پتا بھی نہیں چلتا اور ان کے جسم میں کینسر پلتا رہتا ہے۔ اب رہا یہ سوال کہ وہ کیا عام علامات ہیں جن کے ظاہر ہونے کے بعد آپ کو فکر مند ہونے کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ گٹھلی نمودار ہو تو آپ ڈاکٹر کے پاس جائیں وہ ٹیسٹ چیک اپ کے بعد آپ کو بتا دے گا کہ یہ کینسر ہے یا نہیں ہے۔ اسی طرح کھال اندر دھنس رہی ہو تو بھی فکر مندی کی ضرورت ہے۔ نپل اندر کی طرف ہو۔ کھال میں ورم ہوجائے۔ ایک بریسٹ کا سائز دوسرے سے مختلف نظر آئے۔ نپل سے خون آ رہا ہے۔ بغل میں غدود معلوم ہو رہے ہوں۔ ان علامات کے ظاہر ہونے پر ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہیے۔ میں یہ نہیں کہہ رہی کہ یہ علامات کینسر کی ہیں، بتانے کا مقصد یہ ہے کہ آپ کو اطمینان اس حوالے سے ڈاکٹر ہی دے سکتا ہے کہ یہ کینسر ہے یا نہیں۔ اب علامات ظاہر ہوں اور درد نہ ہونے کی وجہ سے کوئی سکون سے بیٹھ جائے اور پھر اگلے مرحلے میں یہ خطرناک صورت اختیار کرے تو یہ بہت رسکی معاملہ ہے، اس لیے ڈاکٹر سے بروقت رجوع کرنا ہی زیادہ سود مند ہے۔ 

ایم ایم نیوز: ڈاکٹر صاحبہ یہ بتائیے کہ خدانخواستہ بریسٹ کینسر کی تشخیص ہوجائے تو یہ بتائیے کہ اس کے بعد کیا ٹریٹمنٹ ہوتی ہے کیا سرجری لازم ہوتی ہے؟

ڈاکٹر روفینا سومرو: دیکھیں تشخیص کیلئے پہلے ہمیں ڈاکٹر کی ایگزامینیشن کی ضرورت ہوتی ہے، پھر ایکسرے جو میموگرام پر ہو،  اور تیسری اہم چیز بائیو اپسی ہے۔ بائیواپسی بہت ضروری ہے، بغیر بائیواپسی کے آج کے اس دور میں کسی کو کینسر کا مریض قرار دے کر علاج شروع نہیں کیا جانا چاہیے۔ بائیو اپسی سے ہمیں نہ صرف یہ پتا چلتا ہے کہ کینسر کس لیول کا ہے بلکہ یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس کا علاج کن دواؤں سے ممکن ہے۔ بائیو اپسی میں تشخیص ہونے کے بعد ہم یہ دیکھتے ہیں کہ کینسر صر ف بریسٹ تک محدود ہے یا بریسٹ کے علاوہ بھی کسی حصے میں پھیل چکا ہے۔

بریسٹ کینسر بڑھ جائے تو عموما گردوں، پھیپھڑوں سمیت دیگر اعضا کو بھی متاثر کر دیتا ہے، اس لیے اگر کینسر پھیل گیا ہو تو ہم براہ راست آپریشن کی طرف نہیں جاتے۔ پہلے ہم ڈرپ میں ڈال کر جو انجکشنز دیے جاتے ہیں، جسے کیموتھراپی کہا جاتا ہے، وہ دیتے ہیں۔ اس کے بعد ہی سرجری کی طرف جاتے ہیں اور اگر کوئی ابتدائی اسٹیج پر ہو تو اس کو پہلے سرجری کرکے بعد میں بھی کیمرتھراپی کی جاسکتی ہے۔ بروقت تشخیص اور علاج شروع کرانے کا ایک بڑا فائدہ یہ بھی ہے کہ کینسر نہ پھیلا ہو تو صرف متاثرہ جگہ کو ہی ریمو کرکے باقی بریسٹ کو بچایا جا سکتا ہے۔ اسی طرح بغل میں بھی انڈرآرم غدود کو ہی نکال کر باقی بازو کو بچایا جا سکتا ہے۔ ابتدائی اسٹیج والوں کو سرجری اور کیمو تھراپی کے عمل سے گزرنے کے بعد ریڈیو تھراپی دی جاتی ہے۔ بہرحال ہمیں اس مرض سے زیادہ نہیں ڈرنا چاہیے۔ ہمیں سمجھ لینا چاہئے کہ یہ ناقابل علاج بیماری نہیں بلکہ قابل علاج مرض ہے۔ بروقت علاج شروع کرائیں، گٹھلی کو ہم جتنے چھوٹے سائز میں پکڑیں گے اتنا ہی علاج آسان اور کم تکلیف دہ ہوگا۔ اور اس کے انڈر آرم سمیت کہیں بھی پھیلنے کے چانسز بھی کم ہوں گے۔

ایم ایم نیوز: اس مرض میں ری کنسٹرکشن کس حد تک ممکن ہے، کسی لیڈی کو خدا نخواستہ یہ مرض ہوجائے اور پھر علاج سے وہ ٹھیک ہوجائے تو باقی زندگی وہ کس حد تک بہتر گزار سکتی ہے؟

ڈاکٹر روفینا سومرو: اگر بریسٹ نکالنے کی نوبت آجائے تو بھی بریسٹ کی ری کنسٹرکشن ہوسکتی ہے۔ اس میں ہم پیٹھ کے عصبات کو ایک آرٹیفشل امپلانٹ کے سہارے لگا دیتے ہیں۔ پلاسٹک سرجری کے ذریعے نپل کو بھی ری کنسرکٹ کیا جا سکتا ہے۔ سروائیو کے بعد ایک عورت بالکل نارمل زندگی گزار سکتی ہے۔ دیکھیں کیموتھراپی سے بال گرجاتے ہیں، جو ایک عورت کیلئے بڑی بات ہے مگر یہ ہمیشہ کیلئے ختم نہیں ہوتے، جیسے ہی کیموتھراپی کا عمل مکمل ہوجاتا ہے اس کے بعد بال دوبارہ اگ آتے ہیں۔ بلکہ بعض دفعہ تو پہلے سے بھی بہتر بال آتے ہیں۔ اسی طرح ہارمون سے متعلق بعض دوائیں جو اس مرض میں دی جاتی ہیں ان سے جسم اور ہڈیوں میں کمزوری آجاتی ہے مگر ساتھ ہی ہم بعد میں ایسی دوائیں تجویز کرتے ہیں جن سے یہ کمزوری نہیں رہتی۔ 

ایم ایم نیوز: ہمارے معاشرے میں عورتیں چونکہ مردوں پر زیادہ انحصار کرتی ہیں تو آپ کے خیال میں کیا اس مرض کے حوالے سے مرد حضرات کو بھی اویئر کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ اپنی بہن، بیٹی، بیوی کا اس حوالے سے خصوصی خیال اور دھیان رکھیں تاکہ کسی بھی مشکل کی صورت میں ان کا بروقت علاج ہو سکے؟

ڈاکٹر روفینا سومرو:  آپ نے بالکل درست اور میرے دل کی بات کی ہے۔ یہ بہت ضروری ہے اور اس لیے بھی ضروری ہے کہ ہوتا یہ ہے اس معاملے میں عورت پہلے تو فیملی کی کسی عورت کو ہی بتاتے ہوئے ہچکچاتی ہے، پھر وہ عورت فیملی کے کسی مرد کو بتانے سے احتراز کرتی ہے۔ آپ کی بات بالکل درست ہے کہ ہم عورتیں میل ڈیپنڈڈ ہیں۔ میں نے اپنے کیریئر میں دیکھا ہے کہ جس عورت کے میل فیملی ممبر سپورٹیو ہوں والد، بھائی اور شوہر جو بھی سپورٹیو ہو، نہ صرف وہ اپنے مریضہ کو بروقت لیکر آتے ہیں بلکہ ایسی متاثرہ عورت اپنی مشکلات کو بھی اعتماد کے ساتھ فیس کرتی ہے۔ جس عورت کو میل فیملی ممبر سپورٹیو نہ ملیں اس کیلئے اس بیماری کے علاج کا سفر بہت مشکل ہوجاتا ہے، اس لیے مرد حضرات کو اس بیماری کے متعلق آگہی دینا بھی اتنا ہی ضروری ہے جتنا خود خواتین کا اس کے متعلق آگاہ ہونا ضروری ہے۔ عورت کے ساتھ ساتھ مرد کو بھی آگہی دے کر ہی اس مرض کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔  

Related Posts