اسلام اور ماحول

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

آج کل ماحول اور موسمی تغیرات ایک اہم موضوع بنا ہوا ہے کیونکہ پوری دنیا حال ہی میں گلوبل وارمنگ کی وجہ سے غیر معمولی موسمیاتی تبدیلیوں  کا سامنا کر رہی ہے۔ پریشان کن ماحولیاتی مسائل میں ہوا اور پانی کی آلودگی، اوزون کی تہہ کی تباہی اور کوڑے کرکٹ کا انتظام و انصرام شامل ہے۔ قرآن پاک اور پیغمبر اسلام ﷺ کی سنت میں ہمارے ارد گرد کے ماحول کے علاج کے بارے میں بہت سے اسباق اور ہدایات کا ذکر کیا گیا ہے۔

قرآن نے سورہ الاحزاب کی آیت نمبر 72 میں ذکر کیا ہے کہ بے شک ہم نے امانت کو آسمانوں اور زمین اور پہاڑوں کے سامنے پیش کیا تو انہوں نے اسے اٹھانے سے انکار کر دیا اور اس سے ڈر گئے۔ لیکن انسان نے اسے برداشت کیا۔ بے شک وہ ظالم اور جاہل تھا۔ اور سورۃ الانعام آیت نمبر 165 میں فرمایا کہ اور وہی ہے جس نے تم کو زمین پر جانشین بنایا اور تم میں سے بعض کو بعض پر درجات بلند کیے تاکہ جو کچھ اس نے تمہیں دیا ہے اس کے ذریعے تمہاری آزمائش کرے۔ بے شک تیرا رب جلد سزا دینے والا ہے۔ لیکن بے شک وہ بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔

مندرجہ بالا آیات ہمیں بتاتی ہیں کہ ہم انسان زمین پر جانشین یعنی خلیفہ کی حیثیت رکھتے ہیں اور اس لیے زمین اور اس کے ماحول کی دیکھ بھال کرنے کے لیے ہم پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ زمین پر ہماری زندگی مختصر اور عارضی ہے اور اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اس کی دیکھ بھال ہمارے سپرد کی ہے اور اگر ہم اسے آلودگی کے ذریعے بگاڑتے ہیں تو ہم نے اس امانت میں خیانت کی ہے۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ ہمیں سورہ البقرہ کی آیت 60 میں ایک بار پھر تمام زمین پر فساد نہ پھیلانے کے بارے میں متنبہ کرتے ہوئے فرماتا ہے اور زمین پر فساد نہ پھیلاؤ (اور) ظلم نہ کرو۔

بدعنوانی کی بہت سی صورتیں ہیں مثلاً چوری، دھوکہ دہی اور سیاسی جرم۔ تاہم، ہم ماحولیاتی محاذ پر ہونے والی بدعنوانی کو دیکھ سکتے ہیں جیسے ایمیزون کے برساتی جنگلات کی بڑے پیمانے پر کٹائی، آبی ذخائر میں زہریلے فضلے کو پھینکنا، اور بڑھتے ہوئے لینڈ فلز۔ لہٰذا قرآن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ہم اپنے اعمال اور زمین پر ان کے اثرات کے بارے میں ہمیشہ محتاط رہیں۔

اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں پانی کی اہمیت کے بارے میں بتاتا ہے جو زندگی کے لیے ضروری ہے۔ اور اللہ نے آسمان سے بارش برسائی اور اس کے ذریعے زمین کو اس کے بے جان ہونے کے بعد زندگی بخشی۔ بے شک اس میں ایک نشانی ہے ان لوگوں کے لیے جو سنتے ہیں۔(سورہ نحل آیت 65)۔ مزید برآں، اللہ تعالیٰ یہاں زندگی اور موت کی تشبیہ استعمال کرتا ہے تاکہ مسلمانوں کو پانی کی قدر کا احساس ہو اور ہمیں سب کے لیے صاف پانی فراہم کرنے کی یاد دہانی کرائی جائے۔ بحیثیت مسلمان، ہمارا یقین ہے کہ پانی اللہ تعالیٰ کا ہے اور کسی کو بھی اس پر اجارہ داری نہیں کرنی چاہیے بلکہ اسے پورے معاشرے میں تقسیم کرنا چاہئے۔

قرآن نے اوزون کی تہہ کی حفاظتی نوعیت کا تذکرہ کیا ہے، اور ہم نے آسمان کو ایک محفوظ چھتری بنا دیا ہے پھر بھی وہ اس کی نشانیوں سے منہ موڑتے ہیں۔‘‘ (سورۃ الانبیاء آیت 32)۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے سیارے کو اوزون کی تہہ سے بنا کر ہماری حفاظت فرماتا ہے تاکہ ہمیں  الٹرا وائلٹ شعاعوں سے بچایا جا سکے جو ہمیں اور دیگر جانداروں کو نقصان پہنچا سکتی ہیں۔ افسوس کی بات ہے کہ ہم نے آہستہ آہستہ اوزون کی تہہ کو تباہ کردیا جس سے ہمیں اور دیگر جانداروں کو نقصان پہنچ رہا ہے۔

قرآن کے علاوہ ہمارے نبی ﷺ کی بہت سی احادیث ہیں جو ماحول اور اس کی دیکھ بھال اور حفاظت سے متعلق ہیں۔ اس سلسلے میں ایک مشہور حدیث یہ ہے کہ دنیا خوبصورت اور سرسبز ہے، اور بے شک اللہ تعالیٰ نے تمہیں اس میں اپنا نگہبان بنایا ہے، اور وہ دیکھتا ہے کہ تم اپنے آپ کو کیسے بری کرتے ہو” (صحیح مسلم)۔ یہ حدیث اس معاملے میں مذکورہ بالا قرآنی آیت کی تصدیق کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ انسانوں کو آزمائش کے طور پر، ایک مقدس امانت کے طور پر زمین کی دیکھ بھال کرنے کی ذمہ داری دیتا ہے ۔ مزید برآں اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ماحول کے بارے میں رسول اللہ ﷺ کو کتنا اضطراب اور فکر تھی۔

صحیح البخاری 198 اور صحیح مسلم 325 میں درج اس حدیث میں ہمارے نبی ﷺ نے قدرتی وسائل کے تحفظ کے بارے میں ہمیں ایک قیمتی سبق سکھایا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک مد یا آدھے کلو گرام سے وضو کرتے، اور ایک صاع یا دو کلو سے 5 مد تک رسمی غسل فرماتے تھے۔ لہٰذا، ہمیں قدرتی وسائل کو کم سے کم ممکنہ مقدار میں استعمال کرتے ہوئے محفوظ کرنا چاہیے جس پر ہمیں اپنی روزمرہ کی زندگیوں میں کھانا پکانے، حرارتی نظام، روشنی اور آپریٹنگ آلات کے لیے گیس اور بجلی کا استعمال کرتے ہوئے عمل کرنا چاہیے۔

ایک اہم ماحولیاتی تحریک ری سائیکل ہے جس کے تین اصول ری سائیکل، ری یوز اور ریڈیوس ہیں تاہم اس کا ذکر ہمیں سنتِ رسول اللہ ﷺ میں 14سو سال قبل مل جاتا ہے۔ ایک مرتبہ ہشام نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ رسول اللہ ﷺ اپنے گھر میں کیا کرتے تھے؟ آپ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ (ایک عام انسان کی طرح) اپنے جوتے خود مرمت کرلیتے اور کپڑے خود سی لیا کرتے تھے۔ (الادب المفرد، 540) یہ حدیث واضح کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی تخلیق کردہ سب سے عظیم ترین ہستی روزمرہ کی زندگی میں پائیداری کی اہمیت سے واقف تھی۔ 

ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقہ کے طور پر درخت لگانے کی ترغیب دی ہے، مسلمانوں میں کوئی ایسا نہیں ہے جو درخت لگائے یا بیج بوئے، پھر اس میں سے کوئی پرندہ، انسان یا جانور کھا لے، لیکن اس کا شمار کیا جاتا ہے۔ یہ اس کیلئے صدقۂ جاریہ ہے۔” (صحیح بخاری، جلد 3، کتاب 39، نمبر 513)۔ ہم سب درخت لگانے کے ماحولیاتی فوائد کو جانتے ہیں جیسے ہوا اور پانی کے معیار کو بہتر بنانا، اوزون کی تہہ کی حفاظت کرنا اور درجہ حرارت کو کنٹرول کرنا لیکن یہ بھی تصور کریں کہ ہمیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس صدقۂ جاریہ پر کتنے انعامات ملیں گے اور کتنی نسلیں اس سے مستفید ہوں گی۔

ماحول کو صاف ستھرا اور محفوظ رکھنا ایک اور سبق ہے جو پیغمبرِ اسلام ﷺ نے ہمیں سکھایا۔ ہمارے نبی ﷺ نے فرمایا کہ ایک آدمی راستے میں چل رہا تھا کہ اسے راستے میں ایک کانٹے دار ٹہنی نظر آئی اور اس نے اسے ایک طرف ہٹا دیا۔ اللہ نے اس کے عمل کی قدر کی اور اسے معاف کر دیا۔ (صحیح البخاری 2340 اور صحیح مسلم 1914)۔ پاکستان جیسے ملک میں ہمیں روزانہ سڑکوں سے ملبہ ہٹا کر معافی حاصل کرنے کے مواقع ملتے ہیں لیکن تشویش کی بات یہ ہے کہ ہم ایسا کرنے کی زحمت نہیں کرتے۔

میں اپنے آپ کو اور دوسروں کو یاد دلاتا ہوں کہ رسول اللہ ﷺ نے جن 7 اعمال کا ذکر کیا ہے ان سے ہمیں موت اور قبر میں بھی اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی طرف سے اجر ملتا رہتا ہے، تین کا تعلق ماحول سے ہے، یعنی نہر بنانا۔ کنواں کھودنا اور کھجور کا درخت لگانا (مسند البزار 2773)

Related Posts