صحت کا بین الاقوامی دن اور کورونا کی عالمی وباء، دُنیا کا مستقبل کیا ہوگا؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

صحت کا بین الاقوامی دن اور کورونا کی عالمی وباء، دُنیا کا مستقبل کیا ہوگا؟
صحت کا بین الاقوامی دن اور کورونا کی عالمی وباء، دُنیا کا مستقبل کیا ہوگا؟

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

پاکستان سمیت دُنیا بھر میں صحت کا عالمی دن آج منایا جارہا ہے جو ہر سال اقوامِ متحدہ کے ادارے ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (عالمی ادارۂ صحت) کے یومِ تاسیس کے موقعے پر منایا جاتا ہے۔

عالمی ادارۂ صحت کا قیام 7 اپریل 1948ء کے روز عمل میں لایا گیا۔ صحت کے مسائل ویسے تو بے شمار ہیں لیکن آج کل کورونا کی عالمی وباء شعبۂ طب و سائنس دونوں کیلئے سب سے بڑا چیلنج بنی ہوئی ہے۔ آئیے صحت و تندرستی کے حوالے سے عالمِ انسانیت کے مسائل کا جائزہ لیتے ہوئے یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ دُنیا کا مستقبل کیا ہوگا۔

کورونا وائرس کی صورتحال

دُنیا بھر کے 200 سے زائد ممالک اور خطوں میں کورونا وائرس سے 13 کروڑ31 لاکھ 1 ہزار 401 افراد متاثر ہوئے جبکہ 28 لاکھ 88 ہزار 757 افراد زندگی کی بازی ہار گئے۔ فعال کیسز کی تعداد 2 کروڑ 28 لاکھ 61 ہزار 999 ہے۔

سب سے زیادہ کورونا سے متاثر ملک امریکا ہے جہاں 3 کروڑ 15 لاکھ 60 ہزار 438 افراد کورونا کا شکار ہوئے جبکہ 5 لاکھ 70 ہزار 260 افراد ہلاک ہو گئے۔ برازیل میں کورونا سے 3 لاکھ 37 ہزار 364 جبکہ بھارت میں 1 لاکھ 66 ہزار 208افراد ہلاک ہوئے۔

آج پاکستان میں کورونا کے 4 ہزار سے زائد نئے کیسز رپورٹ ہوئے۔ وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد 7 لاکھ سے تجاوز کر گئی جبکہ اموات 15 ہزار سے زائد ہیں۔ فعال کیسز کی تعداد 64 ہزار 373 ہے۔ 

صحت کا عالمی دن اور ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن 

ہر سال 7 اپریل کے روز عالمی ادارۂ صحت کے تحت صحت کا عالمی دن منایا جاتا ہے جس کا آغاز 1950ء میں ہوا۔ گزشتہ 50 برسوں کے دوران عالمی ادارۂ صحت نے صحت کے بے شمار مسائل اجاگر کیے جن میں ذہنی صحت، زچہ و بچہ کی صحت اور ماحولیاتی تبدیلی بھی شامل ہیں۔

رواں برس صحت کے عالمی دن کا موضوع ہر ایک کیلئے ایک منصفانہ اور صحت مندانہ زندگی  رکھا گیا ہے۔ ادارۂ صحت کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس کے باعث بے شمار افراد غربت کی لکیر سے نیچے چلے گئے اور خوراک کے عدم تحفظ کا احساس اجاگر ہوا۔

ادارۂ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے مطابق کورونا وائرس کے باعث جنسی، سماجی اور صحت کی عدم مساوات سے متعلق مسائل میں اضافہ ہوا ہے۔ رواں برس ادارۂ صحت نے عالمی برادری سے صحت سے متعلق عدم مساوات کے خلاف اقدامات کا مطالبہ کیا ہے۔

ڈبلیو ایچ او کا کہنا ہے کہ صحت سے متعلق سہولیات کی فراہمی ہر انسان کا بنیادی حق ہے جو اسے رنگ و نسل، مذہب، ذات پات، سیاسی نظریات، معاشی صورتحال یا سماجی مطابقت سمیت ہر قسم کے تعصب کو بالائے طاق رکھتے ہوئے دیا جانا چاہئے۔ 

پاکستان میں شعبۂ صحت سے متعلق اعدادوشمار

سن 19-2018ء میں وزارتِ خزانہ کے اقتصادی سروے کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 2 لاکھ 20 ہزار 829 رجسٹرڈ ڈاکٹرز موجود تھے جبکہ ڈینٹسٹ 22 ہزار 595 اورنرسز کی تعداد 1 لاکھ 8 ہزار 474 رہی۔

جب ان اعدادوشمار کا موازنہ پاکستان کی آبادی سے کیا گیا تو پتہ چلا کہ ہر 963 افراد کیلئے صرف ایک ڈاکٹر دستیاب ہے جبکہ ہر 1 ہزار 608 افراد کیلئے ہسپتالوں میں صرف 1 بیڈ کی گنجائش موجود ہے۔ 

وزارتِ خزانہ کے اقتصادی سروے کے مطابق پاکستان گزشتہ کئی عشروں سے ہر سال شعبۂ صحت پر اپنے جی ڈی پی کا 1 فیصد سے بھی کم حصہ خرچ کرتا ہے، تاہم یہ اعدادوشمار صرف سرکاری شعبۂ صحت سے تعلق رکھتے ہیں۔ 

پانچ دیگر حقائق 

پہلی حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں نجی شعبے کے ہسپتال تقریباً 70 فیصد آبادی کے صحت سے متعلق مسائل حل کرتے ہیں۔ سرکاری ہسپتالوں کے مقابلے میں نجی ہسپتالوں کی خدمات کہیں زیادہ بہتر سمجھی جاتی ہیں جس سے عوام زیادہ مطمئن ہیں تاہم نجی ہسپتالوں کی بھاری بھرکم فیسز کون برداشت کرے؟ یہ ایک الگ مسئلہ ہے۔

دوسری حقیقت ایک غلط فہمی کا تدارک ہے۔غلط فہمی یہ ہے کہ سرکاری ہسپتال عوام کو مفت علاج معالجے کی سہولیات فراہم کرتے ہیں جبکہ پاکستان کی 78 فیصد آبادی علاج معالجے کے اخراجات اپنی جیب سے ادا کرتی ہے۔

تیسری حقیقت یہ ہے کہ پاکستان نے اقوامِ متحدہ کے ملینیم ڈویلپمنٹ گولز (ایم ڈی جیز) پر دستخط کیے جس کے بعد سے صحت پاکستان کیلئے ایک اہم مسئلہ بن چکا ہے۔ پاکستان نے بنیادی اور دیہی مراکزِ صحت کو بہتر بنانے پر کام شروع کردیا ہے۔

چوتھی حقیقت یہ ہے کہ عوام کی خدمت کیلئے رجسٹرڈ ڈاکٹرز میں سے تمام عوام کو خدمات مہیا نہیں کرتے جن میں وہ خواتین ڈاکٹرز بھی شامل ہیں جو سماجی مسائل یا گھریلو روایات کے باعث گھر بیٹھ جاتی ہیں۔ نتیجتاً ہر 1 ہزار 764 پاکستانیوں کیلئے صرف ایک ڈاکٹر بچتا ہے جو بیماروں کا علاج کرسکے۔ 

ہر 1000 اشخاص کیلئے 2 ڈاکٹرز یا پھر یوں کہا جائے کہ ہر 500 افراد کیلئے 1 ڈاکٹر فراہم کیا جائے، تب کہیں جا کر شعبۂ صحت کی ضروریات پوری ہوسکتی ہیں۔

پانچویں اور آخری حقیقت یہ ہے کہ 92 فیصد دیہی اور 100 فیصد شہری آبادی کو صحت کی سہولیات تک رسائی حاصل ہے، تاہم زیادہ تر افراد نجی شعبے کو ترجیح دیتے ہیں جو مہنگا ہے۔

بین الاقوامی دن منانے کا مقصد اور ہمارے فرائض 

سالانہ بنیادوں پر بین الاقوامی یومِ صحت منانے کا مقصد صحت کے متعلق مسائل پر شعور اجاگر کرنا اور پاکستان سمیت دنیا بھر کے ممالک میں حکومتوں کو صحت کی بنیادی ضروریات عوام تک پہنچانے کیلئے آمادہ کرنا ہے۔

تشویشناک بات یہ ہے کہ دیگر بیماریوں کے ساتھ ساتھ کورونا سے بچنا پاکستان سمیت ہر ملک کیلئے اہم ترین مسئلہ بن چکا ہے کیونکہ کورونا وہ بیماری ہے جس نے انسانی صحت کے ساتھ ساتھ معیشت اور سماجی تعلقات کو بھی نقصان پہنچایا۔

ہو یہ رہا ہے کہ دنیا کے امیر ممالک کورونا ویکسین ذخیرہ کرکے رکھتے جارہے ہیں جو بہت سے غریب ممالک کی پہنچ سے دور ہے۔ پاکستان میں ویکسین لگانے کا عمل اتنا سست ہے کہ بلومبرگ کے مطابق ملک کی 75فیصد آبادی کو ویکسین لگانے کیلئے 10 سال لگ جائیں گے۔

اس صورتحال میں پاکستان کے ہر شہری کا یہ فرض بنتا ہے کہ کورونا سمیت ہر بیماری سے بچنے کیلئے احتیاطی تدابیر اختیار کرے جبکہ حکومت کا فرض ہے کہ عوام کو صحت کی بنیادی سہولیات فراہم کرنے کیلئے صحت سے متعلق بجٹ میں خاطر خواہ اضافہ کیا جائے اور سرکاری ہسپتالوں سمیت صحت سے متعلقہ تمام اداروں میں اصلاحات لائی جائیں۔ 

 

Related Posts