تھیلیسیمیا کا عالمی دن، بیماری میں مبتلا افراد کے اعدادوشمار اور حقائق

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

پاکستان سمیت دنیا بھر میں خون کی موروثی اور مہلک بیماری تھیلیسیمیا کا عالمی دن آج منایا جارہا ہے جس کا شکار بچے ماں کے پیٹ میں اپنی پیدائش سے قبل یا پھر بعض اوقات پیدائش کے کچھ وقت کے بعد جان کی بازی ہار جاتے ہیں۔

آئیے تھیلیسیمیا کے عالمی دن کے موقعے پر بیماری میں مبتلا افراد کے اعدادوشمار اور مختلف حقائق کا جائزہ لیتے ہیں اور یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ اگر دنیا بھر کے انسان اِس موذی بیماری سے نجات چاہتے ہیں تو انہیں کیا کرنا چاہئے؟

موذی بیماری تھیلیسیمیا کے اعدادوشمار

مہلک اور موذی مرض تھیلیسیمیا کے اعدادوشمار خوفناک حد تک پریشان کن ہیں کیونکہ صرف سن 2012ء میں خیبر پختونخوا میں تھیلیسیمیا کے 25 ہزار مریض رجسٹر ہوئے تھے جبکہ سن 2011ء میں رجسٹر کیے گئے مریضوں کی تعداد 20 ہزار رہی۔ہر سال پاکستان کے ہر صوبے سے تھیلیسیمیا کے ہزاروں مریض رجسٹر کیے جاتے ہیں۔

پاکستان دنیا بھر میں تھیلیسیمیا سے سب سے زیادہ متاثرہ ممالک میں شمار کیا جاتا ہے۔ پاکستان بھر میں کم و بیش 1 لاکھ سے زائد افراد تھیلیسیمیا کے وہ رجسٹرڈ مریض ہیں جنہیں خون کی ہر کچھ روز بعد ضرورت پڑتی ہے۔ 

تھیلیسیمیا اور اس کی قسمیں

بنیادی طور پر تھیلیسیمیا خون کی وہ بیماری ہے جس میں انسانی جسم میں معیاری خون ناکافی مقدارمیں پیدا ہوتا ہے جو خون کے اہم جزو ہیمو گلوبن کا پیدائشی نقص قرار دیا جاتا ہے اور زیادہ تر صورتوں میں یہ بیماری موروثی اور دائمی ہوتی ہے جس کی 3 اقسام بیان کی جاتی ہیں۔

پہلی قسم  تھیلیسیمیا مائنر ہے جس میں والدین میں سے ایک سے تندرست جبکہ دوسرے سے غیر صحت مندانہ جین بچوں میں منتقل ہوتا ہے۔ ایسے لوگوں میں تھیلیسیمیا بظاہر موجود نہیں ہوتا لیکن یہ لوگ اپنے جینز اگلی نسلوں کو منتقل کرنے کا سبب بن سکتے ہیں۔

دوسری قسم تھیلیسیمیا انٹرمیڈیا کہلاتی ہے جو درمیانی قسم ہے جس کے دوران ہیمو گلوبن کا مسئلہ زیادہ پیچیدہ نہیں ہوتا اور مریض کو خون لگوانے کی ضرورت کم پڑتی ہے تاہم سائیڈ افیکٹس اور پیچیدگیوں کا خدشہ ضرور موجود رہتا ہے۔

تیسری اور سب سے خطرناک قسم خون کی خطرناک بیماری ہوتی ہے جس میں مبتلا مریض کو ہر 2 ہفتے یا کم و بیش وقت کے بعد خون لگانا ضروری ہوتا ہے۔ اگر خون نہ مل سکے تو مریض کی جان کو خطرہ لاحق ہوجاتا ہے۔ 

یونان کی بیماری 

تاریخی اعتبار سے تھیلیسیمیا کا تعلق سکندرِ اعظم سے بیان کیا جاتا ہے جو سیکڑوں سال پہلے جنوبی ایشیاء پر حملہ آور ہوا اور اس حملے کے بعد ہی تھیلیسیمیا کی بیماری برصغیر تک آپہنچی۔

اگر ہم تھیلیسیمیا کے لفظ کا جائزہ لیں تو یہ ایک یونانی لفظ تھیلس سے ماخوذ ہے جس کا مطلب سمندر بتایا جاتا ہے۔ پہلی بار امریکی ماہرِ اطفال تھامس کولی نے ڈاکٹر پرل لی کے ہمراہ 1927ء میں تھیلیسیمیا کی خصوصیات بیان کیں جو اٹلی میں نظر آئیں۔

ابتدا میں تھیلیسیمیا کو ایک ہی خطے کا مرض سمجھا جاتا تھا تاہم اب یہ بیماری دنیا بھر میں پھیل چکی ہے جو جنوبی یورپ، پرتگال، اسپین، یونان اور وسطی یورپ و امریکا کے علاوہ روس میں بھی پائی جاتی ہے۔

وسطی ایشیا میں تھیلیسیمیا پاکستان، ایران، بھارت، بنگلہ دیش، انڈونیشیا، ملائیشا، تھائی لینڈ اور چین کے علاوہ امریکا میں بھی موجود ہے، الغرض دنیا کے بے شمار خطوں میں تھیلیسیمیا کی موجودگی کے ثبوت ملتے ہیں۔  

بعض اہم حقائق

امریکہ کے 20 لاکھ سے زائد شہریوں میں تھیلیسیمیا کی موجودگی کا انکشاف ہوا ہے۔ زیادہ تر تھیلیسیمیا مشرقِ وسطیٰ، ایشیا، جنوب مشرقی ایشیا اور کیریبین پس منظر کے حامل افراد میں ملتا ہے۔

جہاں والد اور والدہ دونوں کے اجسام میں تھیلیسیمیا موجود ہو، وہاں ہر 4 میں سے 1 بچے میں تھیلیسیمیا میجر کے ساتھ پیدائش کا امکان ہوتا ہے۔

بار بارخون کی منتقلی کے باعث تھیلیسیمیا سے متاثرہ افراد کے خون کے خلیے دیگر خلیات اور اعضاء کیلئے زہریلے ہوجاتے ہیں جس سے خاص طور پر پتے اور دل کو نقصان پہنچتا ہے۔

بعض افراد کو تھیلیسیمیا کے باعث دل کے امراض، ہیپاٹائٹس، پتے کا کینسر اور بانجھ پن سمیت دیگر امراض بھی لاحق ہوسکتے ہیں۔ 

روک تھام اور علاج معالجہ 

ایک موروثی بیماری ہونے کے باعث تھیلیسیمیا جینز کے ذریعے بچوں میں منتقل ہوجاتی ہے جسے روکا نہیں جاسکتا تاہم انتقالِ خون، ہوا، پانی، جسمانی اور جنسی تعلق سے یہ بیماری ایک فرد سے دوسرے میں منتقل نہیں ہوتی۔

اگر ماں باپ دونوں کو تھیلیسیمیا مائنر ہو تو ان کے ملاپ سے پیدا ہونے والے بچے میں تھیلیسیمیا میجر ہوسکتا ہے۔ شادی سے قبل ٹیسٹ کروا کر ہی ایسی بیماری کا تدارک ممکن ہے۔ تھیلیسیمیا کی بیماری ملک بھر میں سب سے زیادہ پشتون بیلٹ میں پائی جاتی ہے۔

پاکستان بھر میں کل 80ہزار سے زائد بچے تھیلیسیمیا سے متاثر ہیں اور یہ مرض ان خاندانوں میں زیادہ پایا جاتا ہے جو خاندان کے اندر یا اپنی ہی ذات پات کے تحت شادی کو ترجیح دیتے ہیں۔

خاندان کے اندر شادیوں کی حوصلہ شکنی کی جانی چاہئے اور اگر یہ نہ کیا جاسکے تو لڑکا اور لڑکی دونوں کو تھیلیسیمیا ٹیسٹ ضرور کرانا چاہئے تاکہ یہ پتہ چل سکے کہ اگر دونوں میں سے کسی ایک کو یا دونوں کو تھیلیسیمیا مائنر ہے تو وہ کہیں بچوں میں منتقل نہ ہوجائے۔ صرف یہ ایک صورت ہے جس سے بیماری کی روک تھام ممکن بنائی جاسکتی ہے۔