خواتین پر تشدد کے خلاف عالمی دن اور جنسی استحصال کے تکلیف دہ اعدادوشمار

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

خواتین پر تشدد کے خلاف عالمی دن اور جنسی استحصال کے تکلیف دہ اعدادوشمار
خواتین پر تشدد کے خلاف عالمی دن اور جنسی استحصال کے تکلیف دہ اعدادوشمار

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

وطنِ عزیز پاکستان سمیت دُنیا بھر میں خواتین پر تشد کے خاتمے کا عالمی دن آج منایا جارہا ہے جبکہ اِس موقعے پر جنسی استحصال کے تکلیف دہ اعدادوشمار انسانیت کے ٹھیکیدار بننے والے عالمی اداروں کا منہ چڑا رہے ہیں۔

دُنیا کے ممالک ترقی یافتہ ہوں یا ترقی پذیر، پسماندہ ہوں یا معاشی طور پر مستحکم، ہر جگہ خواتین کا استحصال کیا جاتا ہے، انہیں جسمانی و ذہنی تشدد، جنسی زیادتی اور ہراسگی کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور تکلیف دینے کے نت نئے طریقے ایجاد کیے جاتے ہیں۔

آئیے 25 نومبر کو ہر سال منائے جانے والے خواتین پر تشدد کے واقعات کے خلاف عالمی دن کے موقعے پر یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ خواتین پر کس ملک میں کتنا ظلم ہوتا ہے؟ کس قسم کے ظلم کے کتنے واقعات کس جگہ رونما ہوتے ہیں اور اگر ان جرائم کا کوئی سدِباب ہے تو وہ کیا ہوسکتا ہے؟

پاکستان میں خواتین پر ظلم کے اعدادوشمار

ساؤتھ ایشین وائر کا کہنا ہے کہ سن 2004ء سے لے کر 2018ء تک پاکستان میں جنسی تشدد کے 5 ہزار 634 واقعات ہوئے، غیرت کے نام پر جرائم 16 ہزار 222 ہوئے، جلانے کے واقعات 1 ہزار 635، گھریلو تشدد کے 1 ہزار 943 جبکہ خودکشی کے 36 ہزار 933 واقعات پیش آئے۔ 5 ہزار 907 واقعات میں خواتین اغواء ہوئیں۔

گزشتہ برس بھی خواتین کو جنسی طور پر ہراساں کیا گیا، ان پر جسمانی و ذہنی تشدد ہوا اور انہیں بد ترین ظلم و جبر کا نشانہ بنایا گیا۔ 2 سال قبل بھارت خواتین کیلئے خطرناک ترین ملک قرار دیا گیا تھا۔

کس ملک کی خواتین کتنے ظلم کا شکار؟

بھارت میں خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی، ہراسانی اور گھریلو تشدد سب سے زیادہ کیا جاتا ہے جبکہ افغانستان اس فہرست میں دوسرے نمبر پر رہا۔ افغانستان 188 ممالک میں سے 171ویں نمبر پر رہا جہاں جنسی تفریق بہت زیادہ ہوتی ہے۔ شام تیسرا ملک ہے جہاں پناہ گزین زیادہ ہیں جو زندگی کی بنیادی سہولیات تک سے محروم ہیں۔

چوتھا ملک صومالیہ ہے جہاں خواتین کی صحت کیلئے انتظامات بد ترین ہیں، معاشی وسائل کم ہیں، خواتین کو ظلم اور استحصال کا سامنا ہے۔ پانچواں ملک سعودی عرب ہے جہاں خواتین جنسی تفریق کا سامنا کرتی ہیں تاہم رواں برس اس رجحان میں کمی آئی ہے کیونکہ سعودی عرب نے خواتین کی ترقی کیلئے اہم اقدامات کیے ہیں۔

چھٹا ملک پاکستان ہے جہاں غیرت کے نام پر قتل، کاروکاری، جنسی استحصال، جبروتشدد، تفریق اور روایتی رواج خواتین پر ظلم کو فروغ دیتے ہیں۔ ساتواں ملک کانگو ہے جہاں جنسی تشدد کے ساتھ ساتھ روایتی رسوم، صحت اور معیشت کے مسائل بھی خواتین کی ترقی کی راہ میں حائل ہیں۔

آٹھواں ملک یمن، نواں نائیجیریا جبکہ دسواں امریکا ہے۔ تینوں ممالک میں خواتین ظلم و تشدد کا شکار رہتی ہیں۔ امریکا میں خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی اور تشدد اہم جرائم میں شامل ہے۔ کام کرنے کی جگہ پر خواتین کو ہراساں کرنا بھی اہم جرم ہے اور گزشتہ برس می ٹو مہم کا آغاز بھی امریکا سے ہوا تھا جو خواتین کے خلاف ظلم کی نشاندہی کا بڑا سبب بنی۔ 

می ٹو مہم نے کیا کیا؟

امریکا سے شروع ہونے والی می ٹو مہم کا مقصد خواتین کے ساتھ ہراسگی کے مسائل کو بے نقاب کرنا تھا تاہم عوامی سطح پر اسے بے حد تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔

پاکستان میں علی ظفر اور میشا شفیع کیس اس کی اہم مثال ہے جس میں میشا شفیع نے الزام عائد کیا کہ علی ظفر نے انہیں جنسی طور پر ہراساں کیا جسے ملزم نے جھٹلایا اور بعد ازاں یہ جرم ثابت بھی نہ ہوسکا۔

جرم ثابت نہ ہونے پر می ٹو مہم کے زیادہ تر کیسز کا یہی حال رہا کہ خواتین کے ساتھ اگر حقیقت میں کوئی ظلم ہوا تھا تو اس کا تدارک نہ ہوسکا اور اگر وہ فنکار بے قصور تھے جنہیں ملزم بنایا گیا تو وہ معاشرے میں دوبارہ اسی مقام پر فائز نہ ہوسکے جس پر پہلے کبھی فائز ہوا کرتے تھے کیونکہ عوام کی نظروں میں ایسے افراد بدنام ہوگئے ہیں۔ 

روایات اور جنسی استحصال کا فروغ 

معاشرتی روایات میں کاروکاری، قرآن سے شادی اور دیگر روایات جن کا تعلق سندھ سمیت پاکستان کے دیگر صوبوں سے ہے، وہ جنسی استحصال کو فروغ دیتی ہیں، اسلام کے نام پر سندھ میں جو قرآن سے شادی کی جاتی ہے، اس کا اسلام سے کوئی ثبوت نہیں ملتا۔

روایت  یہ بھی ہے کہ کوئی لڑکی اپنی مرضی سے کسی لڑکے سے شادی نہیں کرسکتی، شادی وہاں ہوگی جہاں ماں باپ چاہیں گے جبکہ پاکستان کے آئین اور شریعتِ اسلام میں اس کی کوئی سند دستیاب نہیں۔ جس بات کا حق انسان کو خدا نے دیا، اسے بندے ہی بندوں سے چھین لیتے ہیں۔

ریاست کی رِٹ کا مسئلہ 

کاروکاری سے مراد یہ ہے کہ کسی بھی لڑکے اور لڑکی پر جنسی زیادتی کا الزام لگا کر اسے قتل کردیا جائے اور انہیں کارو یعنی مرد ملزم اور کاری یعنی خاتون ملزمہ قرار دے کر رہتی دنیا تک کیلئے مثالِ عبرت بنایا جائے جو دراصل ظلم کی بد ترین شکل ہے۔

اوّل تو زیادہ تر کیسز میں لڑکے اور لڑکی پر جو الزام لگایا جاتا ہے وہ سراسر جھوٹا اور بے بنیاد ہوتا ہے لیکن بالفرض اگر یہ سچ ہو کہ لڑکا لڑکی شادی کی غرض سے یا ویسے ہی ساتھ رہنے کیلئے بھاگ رہے تھے تو ان کا جرم اتنا بڑا نہیں کہ اس پر سزائے موت دی جائے۔

سزائے موت دی جائے یا نہ دی جائے، اس کا فیصلہ ریاست کرسکتی ہے تاہم بد قسمتی سے پاکستان کے مختلف علاقوں میں یہ کام کسی گوٹھ کا سائیں، کسی چک کا چوہدری یا پھر کسی ایجنسی کی پنچائت کرتی نظر آتی ہے جس سے ظلم کو مزید فروغ ملتا ہے اور ریاست کی رِٹ چیلنج ہوتی ہے۔ 

مسائل کا حل 

بد ترین مسئلہ یہ ہے کہ دنیا بھر کے ممالک میں اقتدار ظالم یا نااہل حکمرانوں کے ہاتھ میں ہوتا ہے جو بنیادی انسانی حقوق بالخصوص حقوقِ نسواں کی حفاظت میں ناکام نظر آتے ہیں۔ اگریہ سچ نہ ہو تو خواتین پر ظلم و تشدد کے اعدادوشمار کبھی اتنے تکلیف دہ نہیں ہوسکتے کیونکہ جرائم پر قابو پانا ریاست کی ذمہ داری ہوتی ہے۔

حقوقِ نسواں بحال کرنے کیلئے ہمیں اپنے اندازِ فکر میں بھی تبدیلی لانے کی ضرورت ہے، جرائم پر آواز اٹھانے کو جرم سمجھنا، خواتین کو کمزور ہونے کی وجہ سے انسان نہ سمجھنا اور انہیں بے وجہ جبرو تشدد کا نشانہ بنانا آج کے سب سے بڑے مسائل ہیں۔ 

ریاست اگر اپنے فرائض کو سمجھ کر جرائم کی بیخ کنی کرے، مجرموں کو بر وقت اور سخت سزائیں دی جائیں، قتل کرنے والے کو سزائے موت دی جائے، جنسی ہراسگی کرنے والے کو اس کے جرم کے حساب سے سزا ملے تو کوئی وجہ نہیں کہ جرائم کم نہ ہوں۔

Related Posts