عالمی دن، پاکستان میں شعبۂ سیروسیاحت کو فروغ دینے کی ضرورت اور اہمیت

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

عالمی دن، پاکستان میں شعبۂ سیروسیاحت کو فروغ دینے کی ضرورت اور اہمیت
عالمی دن، پاکستان میں شعبۂ سیروسیاحت کو فروغ دینے کی ضرورت اور اہمیت

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

پاکستان سمیت دُنیا بھر میں عالمی یومِ سیاحت آج منایا جارہا ہے جبکہ اِس موقعے پر اپنے اپنے پیغامات میں صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی اور وزیرِ اعظم پاکستان عمران خان نے پاکستان میں شعبۂ سیر و سیاحت کو فروغ دینے کی ضرورت اور اہمیت پر زور دیا ہے۔

سوال یہ ہے کہ پاکستان سر سبز و شاداب میدانوں، بلند و بالا پہاڑوں اور لق و دق صحراؤں سمیت متنوع اقسام کے خوبصورت نظاروں سے مالا مال ہے تو شعبۂ سیر و سیاحت پر اِس سے قبل توجہ کیوں نہ دی گئی؟ خیر، دیر آید درست آید۔ آئیے عالمی یومِ سیاحت سے لے کر پاکستان میں شعبۂ سیر و سیاحت کے فروغ تک تمام موضوعات پر ایک طائرانہ نظر ڈالتے ہیں۔ 

عالمی یومِ سیاحت کورونا وائرس کے تناظر میں

سب سے پہلے تو یہ سمجھ لیجئے کہ عالمی یومِ سیاحت کوئی نیا عالمی دن نہیں۔ اقوامِ متحدہ کے ممالک گزشتہ 50 برس سے ہر سال یہ دن منا رہے ہیں جن میں پاکستان بھی شامل ہے اور رواں برس عالمی یومِ سیاحت کی اہمیت کورونا وائرس جیسی عالمی وباء کے تناظر میں اور بھی بڑھ گئی ہے۔

اب تک کورونا وائرس نے دنیا بھر میں 3 کروڑ 30 لاکھ افراد کو اپنا شکار بنایا ہے جن میں سے 9 لاکھ 99 ہزار افراد لقمۂ اجل بن چکے ہیں۔ اقوامِ متحدہ کے مطابق دُنیا بھر میں صرف شعبۂ سیاحت میں 12 کروڑ نوکریاں کورونا وائرس کی وجہ سے خطرے میں ہیں۔

رواں برس اقوامِ متحدہ نے عالمی یومِ سیاحت کا موضوع محفوظ، یکساں اور ماحول دوست طریقے سے شعبۂ سیاحت کی تعمیرِ نو رکھا ہے  جس سے موجودہ یومِ سیاحت کی اہمیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ 

پاکستان میں شعبۂ سیاحت کی صورتحال

مختصر الفاظ میں صرف اتنا کہا جاسکتا ہے کہ پاکستان میں شعبۂ سیاحت کا کوئی پرسانِ حال نہیں کیونکہ گزشتہ حکومتوں نے شعبے پر کبھی کوئی توجہ ہی نہیں دی جبکہ موجودہ حکومت کے دور میں جو اقدامات اٹھائے گئے، وہ ناکافی ہیں۔

وزیرِ اعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے آج کمپیوٹر کا بٹن دبا کر  ٹور اِزم پنجاب ایپ کا افتتاح کیا۔ انہوں نے کہا کہ پنجاب کے 511 تفریحی و سیاحتی مقامات کی معلومات ہماری ایپ پر دستیاب ہوں گی۔ عوام آن لائن معلومات اور خدمات بھی حاصل کرسکیں گے۔ کسی بھی سیاحتی مقام کا راستہ بھی معلوم کیاجاسکے گا۔ہوٹلوں کی بکنگ بھی کرائی جاسکے گی۔

دس روز قبل کراچی کے نئے ایڈمنسٹریٹر افتخار شالوانی نے کہا کہ ہم شہرِ قائد کو بھی ترک دارالحکومت استنبول کی طرز پر ایک عالمی سیاحتی مقام بنانے کیلئے اقدامات اٹھا رہے ہیں۔ 16 ستمبر کو کے پی کے میں سیاحت کے فروغ کیلئے 3 نئی اتھارٹیز بنانے کی منظوری دی گئی جس سے پتہ چلتا ہے کہ اداروں کا قیام عمل میں لایا جارہا ہے جس کے بعد شعبۂ سیاحت میں اصل کام ہوگا جو ابھی باقی ہے۔

خیبر پختونخوا میں جن 3 اتھارٹیز کے قیام کی منظوری دی گئی ان میں کیلاش، کمراٹ اور کالام کی ڈویلپمنٹ اتھارٹیز شامل ہیں۔ 3 ستمبر کو پاکستان میں 60 نئے سیاحتی مقامات کھولنے کی تیاری شروع ہوئی۔

سیاحت کے فروغ کیلئے این سی سی (نیشنل کو آرڈی نیشن کمیٹی) کا پہلا اجلاس 3 ستمبر کو ہوا۔ زلفی بخاری نے نئے سیاحتی مقامات کی نشاندہی کی ہدایت کی جہاں سیاحوں کیلئے سہولیات کا بندوبست بھی کیا جائے۔

سیاحتی مقامات کی نشاندہی کیا اور کیوں؟ 

ایسے مقامات جہاں سیاح آئیں اور شعبۂ سیاحت کی آمدن میں اضافہ ہو، انہیں ہم سیاحتی مقامات سے تعبیر کرسکتے ہیں جن کی نشاندہی سے مراد یہ ہے کہ حکومتِ پاکستان کو آگاہ کیا جائے کہ وہ مقامات کون کون سے ہیں؟

اگلا سوال یہ ہے کہ حکومت کو ایسے مقامات بتائے کیوں جائیں؟ کیا حکومت کو نہیں معلوم کہ پاکستان میں سیاحتی مقامات کون کون سے ہیں؟ اِس کا سادہ سا جواب یہ ہے کہ نہیں۔ کیونکہ ہم یہ پہلے عرض کرچکے کہ شعبۂ سیاحت پر ماضی میں کبھی کوئی قابلِ ذکر کام نہیں ہوا۔ 

وزیرِ اعظم اور شعبۂ سیاحت 

زلفی بخاری کا بظاہر شعبۂ سیاحت سے کوئی تعلق نہیں کیونکہ وہ وزیرِ اعظم کے معاونِ خصوصی برائے اوورسیز پاکستانیز ہیں۔ اِس لیے وہ سمندر پار پاکستانیوں کے معاملات پر دسترس رکھتے ہیں تاہم وزیرِ اعظم نے انہیں شعبۂ سیاحت پر بھی اہم ذمہ داری دی۔

اگست کے دوران ہی وزیرِ اعظم عمران خان نے ایک اعلیٰ سطحی قومی رابطہ کمیٹی برائے سیاحت تشکیل دی جس کا کام قومی سیاحتی حکمتِ عملی ترتیب دینا اور اس پر عمل درآمد کا جائزہ لینا تھا۔ زلفی بخاری کمیٹی کے کنوینر مقرر ہوئے۔کمیٹی ہفتہ ور اجلاس کرتی ہے اور ہر 14 روز بعد وزیرِ اعظم کو پیش رفت سے آگاہ بھی کرتی ہے۔

شعبے کے اہم مسائل 

سیر و سیاحت کے شعبے میں اہم مسائل ناجائز تجاوزات، لوٹ مار، ناجائز منافع خوری، سیاحوں کے تحفظ اور ٹرانسپورٹ اور رہائش کی سہولیات ہیں۔

جیسے جیسے شعبۂ سیاحت ترقی کرے گا، اس کے مسائل میں بھی تبدیلی آئے گی، کچھ مسائل بڑھیں گے، کچھ کم ہوں گے، حکومت کو ان تمام پر توجہ دینا ہوگی۔

جب کوئی سیاح پاکستان کا رُخ کرتا ہے تو اسے سستی سفری سہولت مہیا کرنا وفاقی و متعلقہ صوبائی حکومت کی ذمہ داری ہے۔

ہوتا یہ ہے کہ سیاحوں کے ساتھ بد تمیزی کی جاتی ہے جو مقامی دکاندار اور علاقہ مکین بھی کرسکتے ہیں (عام طور پر علاقہ مکین مہمان نواز اور مہربان ہوتے ہیں) اور ناجائز منافع خوری کی جاتی ہے۔ کچھ مفاد پرست عناصر سیاحوں کی لاعلمی کا فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔

بعض اوقات سیاحتی مقامات پر سیوریج اور واش رومز کی صفائی کے مسائل بھی موجود ہوتے ہیں جنہیں حل نہ کرنے سے شعبۂ سیاحت ترقی نہیں کرسکتا۔ ایک بار جو سیاح منفی تاثر لے کر جاتا ہے، وہ دوبارہ لوٹ نہیں سکتا۔ 

سیاحت کی اہمیت 

غور کیجئے تو عرب ممالک میں لق و دق صحراؤں اور ریت کے سوا کچھ بھی نہیں تھا جہاں آج پٹرول کی اہمیت کم ہونے کے باعث شعبۂ سیاحت کو فروغ دیا جارہا ہے کیونکہ ایسے ممالک جانتے ہیں کہ یہی ان کی آخری امید ہے۔

متحدہ عرب امارات میں دبئی نے مشرقِ وسطیٰ اور یورپی ممالک کو بھی سیاحت میں پیچھے چھوڑ دیا۔ دبئی میں غیر ملکی سیاحوں نے اربوں ڈالرز خرچ کیے۔

عالمی ادارۂ سیاحت کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ برس غیر ممالک سے دبئی کا رخ کرنے والے سیاحوں نے 80 ارب درہم خرچ کیے جو 21 ارب80 کروڑ ڈالرز کی خطیر رقم بنتی ہے۔

دبئی میں بلند و بالا عمارات اور تفریح گاہوں کے سوا اور کچھ نہیں، پاکستان تو فطرت کے خوبصورت اور دلفریب نظاروں سے بھرا پڑا ہے۔ اگر موجودہ حکومت سنجیدگی سے اقدامات کرے تو کیا نہیں ہوسکتا؟ آزمائش شرط ہے۔ 

Related Posts