پاکستان میں مہنگائی کی تاریخ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

اگر ہم 1958 سے 1970 تک مہنگائی کا جائزہ لیں تو اس کا کوئی وجود نہیں تھا بلکہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ مہنگائی مائنس میں تھی۔ عوام خوشحال تھے۔ ہر چیز، ہر آسائش اور سامانِ زندگی میسر تھا۔ اسی دور میں پاکستان کے سب سے زیادہ تعمیراتی کام ہوئے۔ اسی دور میں پاکستان نے پانی کے ذخائر کیلئے سب سے زیادہ ڈیم بنائے جس کی وجہ سے آج بھی پاکستان میں بجلی جیسی نعمت میسر ہے جو پانی سے بنائی گئی۔ یہ وہ دور تھا جس میں حکمران پاکستان کے مستقبل کیلئے مثبت سوچ رکھتے تھے۔

حب الوطنی کو سب سے زیادہ اہمیت دی جاتی تھی جس کی وجہ سے ہر وہ کام کیا جاتا تھا جس سے پاکستان کی ترقی ممکن ہوسکتی تھی۔ اس کے بعد 1970 سے سیاست کا آغاز ہوا اور پاکستان کی تاریخ کی سب سے زیادہ مہنگائی 1973 میں ہوئی جو ذوالفقار علی بھٹو کے دورِ حکومت میں ہوا۔ مہنگائی 37.81 فیصد تک جا پہنچی۔مہنگائی کے اس دور میں سیاسی لوگوں نے عوام کو امید دلائی کہ آپ کو اس مصیبت سے نکالا جائے گا اور روٹی، کپڑا اور مکان دیا جائے گا اوریہ بھی کہا گیا کہ دنیا بھر میں حالات خراب ہیں جس کی وجہ سے پاکستان میں مہنگائی ہو رہی ہے اور ہماری مہنگائی کی وجہ ہمارے دشمن ملک بھارت کی سازشیں ہیں۔ 

بہرحال اس امید کے ساتھ عوام نے بھٹو صاحب کا ساتھ دیا کہ مہنگائی کنٹرول میں آئے گی تاہم یہ نہ ہوسکا۔ اس کے بعد جنرل ضیاء الحق کا دور1977ء میں شروع ہوااور 1988تک اُن کا دور رہا۔ 1977ء سے 1981ء تک انہوں نے مہنگائی پر قابو کرلیا اور 3.99فیصد مہنگائی کو نیچے لاتے ہوئے 1982ء میں منفی 5.98پر لے آئے اور مہنگائی کا نا م و نشان مٹا دیا۔ اسی دوران 1980ء سے 1987ء تک سیاسی بھونچال پیدا ہوا، جس میں دشمن ممالک نے بے حد کوشش کی کہ پاکستان پر کسی طرح دباؤ ڈال کر مہنگائی کو مزید بڑھایا جائے، مگر جنرل ضیاء الحق نے مہنگائی کی شرح کو 1.17فیصد سے بڑھنے نہیں دیا۔

جنرل ضیاء الحق کا رجیم 1988ء میں ان کی وفات کے بعد ختم ہوا، اُس کے بعد مہنگائی اپنے عروج پر پہنچتے ہوئے 4.86فیصد پر چلی گئی۔ 1988ء کے بعد 1990ء سے 1993ء تک نواز شریف کا دور آیا اور مہنگائی کی شرح 9.5سے شروع ہوئی اور 1991ء میں 12.63فیصد ہوگئی۔ نواز شریف نے بے حد کوشش کی کہ مہنگائی کو کم کیا جائے اور 1993ء میں 9.83تک لے آئے۔ نواز شریف کی حکومت جاتے ہی بے نظیر بھٹو نے حکومت سنبھالی اور مہنگائی کی شرح کو 9.83فیصد سے لے کر 1995ء میں 13.2مہنگائی کو پہنچا دیا۔

بے نظیر بھٹو نے مہنگائی کی مصیبت اور حالات پر قابو پانے کی کوشش کی اور 1996ء میں مہنگائی کی شرح کو 10.78فیصد نیچے لے آئیں۔ اس کے بعد دوبارہ 1997ء میں نواز شریف کا دور آیا اور مہنگائی 10.78سے لے کر 11.81فیصد پر لے کر چلے گئے۔ عوام کی پریشانی اور دباؤ کے مد نظر رکھتے ہوئے نواز شریف مہنگائی کی شرح کو نے 1999ء میں 5.74فیصد تک نیچے لے آئے۔

اس کے بعد جنرل پرویز مشرف نے نواز شریف کی حکومت کو ختم کرکے ایک غیر سیاسی حکمرانی کی اور مہنگائی کی سطح کو 2000ء میں 3.59فیصد تک لے کر چلے گئے۔ اس کے بعد سیاسی لوگوں نے اُن کی حکومت پر دباؤ ڈالا جس کی وجہ سے 2001ء میں مہنگائی کی شرح 4.41تک پہنچی، اور قائم مقام وزیر اعظم میر ظفر اللہ خان جمالی کو بنا دیا گیا، جو 2002سے 2003ء تک بہت خوبصورتی کے ساتھ مہنگائی کو قابو میں رکھنے میں کامیاب ہوئے اور مہنگائی کو 3.1فیصد تک لے آئے اور اس کے بعد جب پاکستان مسلم (ق) کی حکومت آئی تو انہوں نے مہنگائی کی شرح کو2005ء میں 3.1سے 9.28تک لے کر چلے گئے۔

عوام کا دباؤ بڑھتا چلا گیا اور پاکستان مسلم لیگ (ق) اس دباؤں کو مد نظر رکھتے ہوئے مہنگائی کی اپنی پالیسیز میں تبدیلی لے کر آئی اور 2006ء اور 2007میں مہنگائی کی شرح کو 7.7 فیصد تک کردیا، 2008ء میں پھر پاکستان پیپلز پارٹی کا دور آیا اور مہنگائی کی شرح 12فیصد تک پہنچ گئی، 2008ء میں پیپلز پارٹی نے مہنگائی کی وجہ انٹر نیشنل کرائسز کو قرار دیا،مگر 2012ء تک مہنگائی پر قابو نہ پا سکے اور 11فیصد مہنگائی برقرار رہی، 2012ء کے بعد سیاسی دباؤ بڑھتا چلا گیا جس کی وجہ سے پیپلز پارٹی نے اپنی بے حد کوششوں کے باعث مہنگائی کی شرح کو 7.6فیصد تک لے کر چلی گئی۔

نواز شریف نے اس مہنگائی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے عوام کو مہنگائی کا احساس دلایا اور 2014ء میں اپنی حکومت حاصل کرتے ہوئے مہنگائی کی شرح کو8.62فیصد تک لے گئے، عوام کا غم و غصہ دیکھ کر نواز شریف صاحب نے فرمایا کہ یہ عارضی مہنگائی ہے اور میں اسے کم کرنے کے لئے کام کررہا ہوں اور نواز شریف اسے کم کرنے میں 2016ء میں کامیاب ہوگئے اور 2.8فیصد تک مہنگائی کی سطح ہوگئی۔ 2017ء میں عمران خان صاحب نے دباؤ ڈالنا شروع کیا اور الیکشن میں کرپشن کے چرچے نواز شریف صاحب کے خلاف کرتے ہوئے عوامی نمائندے بن گئے۔

عوام نے کرپشن کی نفرت میں آکر عمران خان صاحب کو ووٹ دیا اور 2018ء میں مہنگائی کی سطح 3.93فیصد پہنچ گئی، اس مہنگائی کو عمران خان صاحب روک نہ سکے اور یہ بڑھتے ہوئے 2019ء میں 6.74فیصد اور 2020ء میں 10.74فیصد تک پہنچ گئی اور عمران خان اس مہنگائی کا قصور وار نواز شریف کو ٹہراتے رہے، 2019ء میں جب مہنگائی نہیں تھمی تب بھی عمران خان نواز شریف ہی کو اس پر مورود الزام ٹہراتے ہیں۔ پاکستان کی معاشی تاریخ کو دیکھتے ہوئے ایسا لگتا ہے کہ سیاسی دوڑ کبھی بھی پاکستان کے عوام کے لئے مہنگائی کو کم نہ کرسکی اور جتنی ترقیاں ہوئیں وہ فوجی دور میں ہوئیں، فوجی دور کو برا کہنے والے تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں، مہنگائی ہمیشہ فوجی دور میں ہی کم ہوئی ہے۔ کیا مہنگائی کی وجہ سیاستدان ہیں یا ان کی پالیسیاں؟

بات یہاں ختم نہیں ہوتی، اگر پاکستان کے حکمرانوں کو صحیح کابینہ ملے جو پاکستان کے لئے کام کرے، تو سیاسی لیڈر فوجی دور سے بھی زیادہ اچھا کام کرسکتی ہے، پاکستان میں سیاسی لیڈر تو بہت اچھے آئے مگر اُن کے ساتھ چمچوں کی فوج اور مفاد پرست لوگ شامل رہے، جن کی وجہ سے آج تک کوئی لیڈر کامیاب نہیں ہوسکا۔ پاکستانی فوج سے سیاستدانوں کو یہ سبق حاصل کرنا چاہئے کہ ٹیم ورک، حب الوطنی، ایمانداری سے ہی ملک ترقی کرتا ہے جوکہ قائد اعظم کا فرمان تھا، جس پر فوج عمل کرتی ہے۔