صنعتی حادثات

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

نیو کراچی انڈسٹریل ایریا میں موجود فیکٹری میں ہونے والا واقعہ انتہائی افسوسناک ہے، جس کی تحقیقات ہونی چاہئیں، پاکستان میں صنعتی حادثات بہت عام ہیں لیکن کمزور تفتیش اور حفاظتی اقدامات نہ ہونے کے باعث ان معاملات کو زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی اور ایک طرف دھکیل دیا جاتا ہے۔

نیو کراچی فیکٹری میں ہونے والے دھماکے کے نتیجے میں 10مزدور اپنی قیمتی زندگیوں سے ہاتھ دھو بیٹھے اور 30کے قریب زخمی ہوگئے تھے، مگر پولیس دھماکے کی اصل وجہ معلوم کرنے میں ناکام رہی، تحقیقات شروع ہوئی تو یہ معاملہ تنازعہ کا شکار ہوگیا، فیکٹری مالکان اکثر نہیں چاہتے کہ اس طرح معاملات کی تحقیقات ہوں تاکہ وہ احتساب سے بچ جائیں، مگر کام کرنے والے کارکنوں کی زندگیاں خطرات میں گھری رہتی ہیں، جبکہ اکثر صنعتوں میں مزدوروں کو ان کی اجرت تک نہیں دی جاتی اور وہ خطرناک حالات میں کام کرتے ہیں۔

غیر محفوظ فیکٹریوں میں حادثات کی بڑی وجہ اکثر ناقص اوزار، سازو سامان، مشینیں اور مواد ہوتے ہیں۔ فیکٹریوں میں حفاظتی معیارات، ناقص ترتیب، ناکافی لائٹنگ، وینٹیلیشن، مقام اور حفاظتی آلات نہیں ہوتے۔ مزدور نفسیاتی مسائل سے دوچار رہتے ہیں، جیسے اوور ٹائم کام کرنا، تھکاوٹ اور مایوسی۔بعض اداروں میں غیر تربیت یافتہ ورکرز ہوتے ہیں، جوکہ حادثات کا ذمہ دار ہوسکتے ہیں،جن کی وجہ سے اکثر صنعتی حادثات رونما ہوتے ہیں۔

نیو کراچی فیکٹری کے مالک نے دعویٰ کیا ہے کہ ان کی جان کو خطرہ ہے اور بلدیہ ٹاؤن واقعے کی طرح ان کی فیکٹری کوجان بوجھ کر نشانہ بنا یا گیا ہے، یاد رہے کہ بلدیہ ٹاؤن فیکٹر ی سانحہ انتہائی دلخراش تھا جس میں 250مزدور اپنی زندگیوں سے ہاتھ بیٹھے تھے، وہ ملکی تاریخ کی بدترین صنعتی تباہی تھی۔ مگر اب فیکٹری مالک کی طرف سے ایسا بیان آنا حفاظتی اقدامات کی خلاف ورزیوں کی سزا سے بچنے کے لئے چال بھی ہوسکتی ہے، فیکٹری مالک نے دعویٰ کیا ہے کہ ان کی فیکٹری میں کوئی بوائلر نہیں تھا جبکہ امونیا گیس کی موجودگی جو آتش گیر ہوتی ہے اور فیکٹری میں ہونے والی آتشزدگی اس کا ثبوت ہے۔

امونیا انتہائی زہریلی گیس ہوتی ہے، جس کے بخارات سانس کے ذریعے جسم میں داخل ہوجاتے ہیں، جب یہ انسان کے جسم میں داخل ہوتے ہیں تو دم گھٹنے سے موت کا سبب بن سکتے ہیں، کراچی میں اس طرح کی بہت ساری فیکٹریاں گنجان آباد علاقوں میں موجود ہیں، جو رہائشیوں کی زندگیاں خطرے میں ڈال رہی ہیں، حکومت کو چاہئے کہ ایسے علاقوں سے لوگوں کو ہٹایا جائے جہاں اس قسم کی فیکٹریاں موجود ہیں، اگر لوگوں کی منتقلی نا ممکن ہو تو ان فیکٹریوں کو رہائشی علاقوں میں فوری طور پر بند کرنا چاہئے۔

حکومت کو یہ یقینی بنانا ہوگا کہ صنعتی فیکٹریوں میں صحت اور حفاظت کے معیارات کو سختی سے نافذ کیا جائے۔ ہمیں اگلی تباہی کا انتظار نہیں کرنا چاہئے بلکہ تمام خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف کارروائی کرنا چاہئے۔ دنیا نے گیس لیلج کے باعث بھوپال میں ہونے والی بدترین تباہی کو محض حفاظتی اقدامات کی عدم فراہمی کی وجہ سے دیکھا ہے، یہ واقعہ بہت دیر ہونے سے پہلے آنکھیں کھولنے کے لئے کافی ہے۔