لاوارث کراچی کو مسیحا کی تلاش

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

کراچی جو کہ پاکستان کا دل اور معاشی مرکز ہے اس شہر کو میگا سٹی ، میٹرو پولیٹن سٹی، پاکستان کا دل، شہر قائد ، معاشی حب اور روشنیوں کا شہر کراچی سمیت نہ جانے کتنے دلفریب اور منفرد لقب دیئے گئے۔

دو کروڑ سے زائد آبادی رکھنے والے شہر کراچی سے پاکستان کو 70 فیصد آمدنی ہوتی ہے اور یہ ہی وہ شہر ہے جو روز تیز دھوپ میں جلتے رہ کر گھنے تناور درخت کی طرح پورے پاکستان پر اپنی چھاؤں رکھتا ہے۔

ملک کے کسی شہر میں کوئی مصیبت یا کوئی آفت آئے کراچی کے شہری سب سے پہلے مدد کیلئے وہاں پہنچتے ہیں اور ہر مظلوم کے حق کیلئے آواز بھی بلند کرتے ہیں۔

ماضی میں ملک میں آئے زلزلوں اور دیگر آفات میں اہل کراچی کی جانب سے جاری امداد اور خدمات کی مثالیں موجود ہیں مگر آہ کے کراچی کی ناانصافیوں اور تکلیفوں پر آواز اٹھانا تو دور کی بات کسی نے کراچی کے درد پر افسوس تک نہ کیا بلکہ سوشل میڈیا پر کراچی کی حالیہ بارشوں کے باعث کراچی میں ہونے والی تباہی پر ملک کے دیگر شہروں کے لوگوں کو ڈوبتے کراچی کی تصاویر کا مذاق اڑاتے ہوئے دیکھا گیا۔

شہر کراچی لاوارث ہو گیا یا بنا دیا گیا یہ ایک لمبی بحث ہے مگر پوری دنیا نے مون سون کے چھٹے اسپیل میں کراچی کو لاوارث پایا۔

کچرا، بہتے گٹر ، پانی سے ڈوبتے علاقے مسائل سے بھرے کراچی کی بے بسی کی داستان سناتے ہیں۔کراچی پر منڈلاتے سیاسی گد ڈوبتے کراچی پر بھی اپنی سیاست چمکانے کیلئے ایک دوسرے کو گالیاں دیتے اور تنقید کرتے ہوئے دکھائی دیئے۔

ہمیشہ کی طرح وفاق نے سارا ملبہ سندھ حکومت پر ڈالا اور سندھ حکومت نے وفاق پر ۔ میئر کراچی وسیم اختر بھی اختیارات کا رونا رو کر سارا ملبہ وفاق اور سندھ حکومت پر ڈالتے ہوئے رخصت ہوگئے جبکہ سوشل میڈیا پر لوگوں کی بڑی تعداد ایم کیو ایم کی پرانی قیادت اور پرانے دور کو یاد کرتی ہوئی دکھائی دی۔

شہر میں پی ٹی آئی اور پیپلز پارٹی کے نام نہاد رہنماء آپس میں طنز کے نشتر برساتے اور کراچی کی تباہی کا ذمہ دار ایک دوسرے کو ٹھہراتے ہوئے دکھائی دیئے۔

ماہ محرم کے باعث اہل تشیع عالم دین بھی یہ شکوہ کرتے ہوئے دکھائی دیئے کہ مختلف سیاسی جماعتوں کے رہنماء شہر میں دورے پر نکلے مگر ہماری مساجد اور امام بارگاہوں سے ہنگامی بنیاد پر پانی نکالنے کا کوئی انتظام نہیں کیا گیا جسکے باعث محرم الحرام کی عشرہ مجالس کے دوران نہایت پریشانی کا سامنا ہے۔

کراچی کی موسلادھار بارش سے کراچی کے بیشمار علاقے ، لوگوں کے گھر اور گاڑیاں ڈوب گئیں تباہی اور درد کے سب سے بڑے مناظر ان لوگوں کے تھے جنہیں اپنے گھروں سے مجبورا نقل مکانی کرنا پڑی۔

گلستان جوہر میں پہاڑی تودا گرنے کا ناخوشگوار واقعہ بھی پیش آیا۔کراچی کے شہریوں کے سامنے کراچی ڈوبتا رہا اور کراچی کی عوام اپنی بے بسی پر آنسو بہاتی رہی۔

کراچی کے نوجوان اور باشعور عوام اب کراچی صوبے کا نعرہ لگا رہے ہیں اس نعرے کی گونج ہم بچپن سے سنتے آرہے ہیں مگر اس بار اس نعرے کی بازگشت نہ تھمنے والی دکھائی دیتی ہے۔

تقسیم ہوتے مظلوم اور ڈوبتے کراچی کو اب تنکے کا سہارا نہیں بلکہ لاوارث کراچی کو اب مسیحا کی تلاش ہے جو صوبے سمیت کراچی کی ہر تکلیف مٹانے میں مدد کرے۔

اس بار میں اپیل وزیر اعظم پاکستان یا وزیر اعلیٰ سندھ سے اسلئے نہیں کرونگی کیونکہ وفاق اور صوبہ اپنے سیاسی مفادات کی جنگ لڑنے میں مصروف ہے اسلئے میں چیف جسٹس آف پاکستان اور آرمی چیف سے اہل کراچی کی جانب سے اپیل کرتی ہوں کہ جب ہر مشکل وقت اور آفت میں آرمی کے جوانوں نے ہی میدان میں اترنا ہے تو پھر کراچی میں ان رنگ برنگے سیاسی مداریوں کا کیا فائدہ؟ ۔

کراچی کی قیادت کو مظلوموں کا درد رکھنے والے کسی بہادر کے حوالے کیا جائے جو کراچی کی عوام کے زخموں کا مرہم بن سکے کیونکہ کراچی کی مضبوطی اور ترقی ہمارے وطن کی سلامتی کی ضامن اور امن و خوشحالی ہماری اولین ترجیح ہے۔

Related Posts