عمران کا الٹی میٹم

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

ملک میں نئی حکومت کے قیام کے باوجود سیاسی بحران جلد کم ہونے کا امکان نظر نہیں آرہا۔ معزول وزیراعظم عمران خان نے ایک بار پھر نئے انتخابات کا مطالبہ کرتے ہوئے دھمکی دی ہے کہ اگر ان کے مطالبات نہ مانے گئے تو وہ احتجاج کی کال دیں گے۔

لاہور میں ایک بڑے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے – نئی حکومت پر دباؤ ڈالنے کے لیے اقتدار کھونے کے بعد سے یہ تیسرا عوامی اجتماع – تھا جس میں عمران خان نے اپنے حامیوں سے کہا کہ اگر نئے انتخابات کے مطالبے کو مسترد کر دیا جاتا ہے تو اسلام آباد کی طرف مارچ کی کال کے لیے تیار رہیں ۔

یہاں سوال یہ ہے کہ کیا حکومت ان کا مطالبہ مانے گی اور اگر انتخابات ہوتے ہیں تو کیا عمران خان اقتدار میں آ سکیں گے؟۔

اسٹیبلشمنٹ کو درپردہ وارننگ دیتے ہوئے عمران خان نے انہیں اقتدار سے بے دخل کرنے والوں کو الٹی میٹم دیا کہ وہ قبل از وقت انتخابات کروا کر اپنی “غلطی” کو سدھاریں ورنہ ان کے حامی “امپورٹڈ حکومت” کا تختہ الٹنے کے لیے وفاقی دارالحکومت پہنچ جائیں گے۔

عمران خان نے کہا کہ وہ محاذ آرائی نہیں چاہتے اور جو بیانیہ انہوں نے پھیلایا ہے وہ انہیں خطرناک راستے پر ڈال سکتا ہے۔

وہ بیانیہ جو انہوں نے پہلے بیان کیا تھا کہ انہیں اقتدار سے ہٹانے کی غیر ملکی سازش تھی وہ بھی قومی سلامتی کمیٹی کے تازہ اجلاس کے بعد ٹوٹ پھوٹ کا شکار نظر آتا ہے۔

قومی سلامتی کمیٹی کا کہنا ہے کہ سیکورٹی ایجنسیوں کو سازش کا کوئی ثبوت نہیں ملا جبکہ عمران خان نے کہا ہے کہ فوج ان سے زیادہ اہم ہے اور انہوں نے کبھی مسلح افواج کے خلاف بات نہیں کی۔

آنے والے مہینے پاکستان کی سیاست کے لیے مزید سخت ثابت ہو سکتے ہیں۔ عمران خان ایک انتہائی موثر اپوزیشن لیڈر ثابت ہوسکتے ہیں اور انہوں نے پہلے ہی متنبہ کیا تھا کہ اقتدار سے باہر دھکیلنے پر وہ مزید تباہ کن ثابت ہوں گے۔

انہوں نے 2014 میں انتخابی دھاندلی کے خلاف احتجاج میں 126 دنوں تک اسلام آباد میں ڈیرے ڈالے اور عوامی اجتماعات میں بڑے ہجوم کو اپنی طرف متوجہ کرنے کا سلسلہ جاری رکھا۔

حالات بتاتے ہیں کہ عمران خان معزول ہونے کے بعد بھی مقبول لیڈر ہیں۔ وزیراعظم شہباز شریف کا کمزور اتحاد کب تک برقرار رہے گا اس پر شکوک و شبہات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ آنے والے مہینوں میں سیاسی بحران مزید سنگین ہو سکتا ہے۔ حکومت قبل از وقت انتخابات کے مطالبات کی طرف مائل ہو سکتی ہے، یہ جانتے ہوئے کہ آخری سیاسی اور معاشی استحکام کا واحد راستہ یہی ہے۔

Related Posts