اسٹریٹ کرائمز کے سد باب کیلئے کیسز کا فوری حل ضروری ہے، فہد بلوچ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

سوشل میڈیا آج کے دور میں نہ صرف تیز ترین ابلاغ کا سب سے موثر ذریعہ ہے، بلکہ یہ تجارت و کاروبار سے لیکر مذہب، سماج اور سیاست تک زندگی کے ہر شعبے میں دخیل ہوچکا ہے اور زندگی کے کسی بھی شعبے میں اس سے مفر نہیں ہے۔ اس کے جہاں بے شمار فوائد ہیں، وہاں ہر چیز کی طرح سوشل میڈیا کا منفی استعمال بھی بڑے نقصانات اور سماجی جرائم کو سائبر کی دنیا کی چھتری فراہم کرنے کا باعث بن رہا ہے۔

دنیا کے دیگر ملکوں کی طرح بد قسمتی سے پاکستان میں بھی سوشل میڈیا کے منفی استعمال کی شکایتیں عام ہیں، جس کی بنا پر لوگوں کو آئے دن مختلف مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ فہد بلوچ کراچی سے تعلق رکھنے والے کچھ کر گزرنے اور خدمت خلق کے جذبے اور توانائی سے بھرپور نوجوان وکیل، قانون دان اور سوشل ایکٹوسٹ ہیں۔ 

خدمت خلق کے جذبے سے سرشار فہد بلوچ یوں تو ہر شعبے میں ہمہ وقت اصلاح و بہتری کیلئے کوشاں رہتے ہیں، مگر اپنے پیشے وکالت اور آن لائن جرائم اور سائبر کرائمز کے ڈسے ہوئے افراد کی مدد ان کی خدمات کا خصوصی دائرہ کا ہے۔ ان دو شعبوں میں فہد بلوچ کی خدمات امتیازی اہمیت کی حامل ہیں۔ ہماری ساتھی ماریہ رزاق نے اپنی ٹیم کے ہمراہ فہد بلوچ سے ملاقات کرکے سوال و جواب کے ذریعے ان کے کام کے حوالے سے معلومات حاصل کیں، آئیے جانتے ہیں کہ فہد بلوچ کی خدمات ہماری سماجی زندگی میں کتنی اہمیت کی حامل ہیں۔

ایم ایم نیوز: سب سے پہلے یہ بتائیے کہ سائبر کرائمز کی شکایات کو ڈیل کرنا کتنا آسان اور کس قدر مشکل ہے؟

فہد بلوچ: سائبر کرائمز کی شکایات کو ڈیل کرنا آسان نہیں مشکل ہے اور مشکل اس لیے ہے کہ بیشتر کیسز میں خود شکایت کنندہ تک کو یہ معلوم نہیں ہوتا کہ اس کے ساتھ یہ سب کرنے والا ہے کون؟ اور کہاں سے اسے تنگ کیا جا رہا ہے؟ اس کی نجی چیزیں وائرل کرنے والا ہے کون، اور یہ کہ ایزی پیسہ کے نام پر کون اس کے ساتھ فراڈ کر رہا ہے؟ اس طرح کے کیسز سامنے آنے کے بعد ان پر بہت محنت کرنا پڑتی ہے، صرف قانون کی راہ دکھانے سے یہ مسائل حل نہیں ہوتے، ایسے کیسز آنے کے بعد ہم متعلقہ اتھارٹیز میں چلے جاتے ہیں اور ایپلی کیشن موو کرنے کے بعد درخواست کرتے ہیں کہ مسئلے کا حل نکالا جائے۔

اس کے بر عکس جہاں شکایت کنندہ کو اپنے مجرم کا پتا ہو تو معاملہ قدرے آسان ہوجاتا ہے، تب ہم ایف آئی اے کے متعلقہ ونگ سے رابطہ کرنے کے بجائے ان کا بوجھ کم کرتے ہوئے پولیس سے رجوع کرکے ملزم کو پکڑوانے کی کوشش کرتے ہیں۔جس سے مسئلہ جلد حل ہونے کی امید پیدا ہوتی ہے، جبکہ اول الذکر قسم کے کیسز میں ایف آئی اے سائبر کرائم کے پراسس میں جانا پڑتا ہے اور یہ قدرے لمبا طریقہ کار ہے۔

ایم ایم نیوز: آپ طویل عرصے سے سائبر کرائمز کیسز میں لوگوں کی مدد کر رہے ہیں، یہ بتائیے کہ اس تمام عرصے میں کبھی کوئی ایسا کیس سامنے آیا جسے سب سے مشکل رہا ہو، یا اس کو حل کرنا آپ نے جذباتی طور پر اپنے لیے ایک چیلنج سمجھا ہو؟

فہد بلوچ: سب سے بڑا چیلنج اب تک ہمارے لیے شاہ زیب قتل کیس کا حل تھا۔ 2012 میں یہ افسوسناک واقعہ ہوا، تو ہم نے بھرپور کوشش کی، دن رات ایک کئے اور بالآخر سوشل میڈیا اور عوام کے تعاون سے اس میں ہمیں کامیابی حاصل ہوئی۔

ایم ایم نیوز: کراچی میں اسٹریٹ کرائمز بڑھ گئے ہیں، کوئی شہری اس سے محفوظ نہیں، یہ بتائیے کہ اس حوالے سے سب سے زیادہ شکایات کس قسم کی موصول ہوتی ہیں؟

فہد بلوچ: سب سے زیادہ موبائل چھننے کی شکایات ملتی ہیں، پھر بائیک اور گاڑیوں کے متعلق شکایات ہوتی ہیں۔ اس میں پیچیدگی یہ ہے کہ یہ کیسز اتنے زیادہ ہیں کہ بے شمار کیسز اب تک پینڈنگ میں ہیں، میں سمجھتا ہوں کہ اس حوالے سے بہت زیادہ کام اور توجہ کی ضرورت ہے، متعلقہ اداروں کو بڑے پیمانے پر ان معاملات کو دیکھنا چاہیے تاکہ لوگوں کی زیادہ سے زیادہ اور جلدی داد رسی ہو۔

ایم ایم نیوز: لوگوں کے مسائل حل کرتے ہوئے کبھی ایسا موقع آیا کہ آپ کو فخر اور اطمینان محسوس ہوا ہو کہ جو کام میں کر رہا ہوں، یہ بہت اچھا کام ہے، اسے جاری رکھنا ہے؟

فہد بلوچ: ایک دو بار نہیں، یہ مواقع بار بار آتے ہیں، جب بھی کسی دکھی اور پریشان حال شخص کا مسئلہ حل کر دیتے ہیں اور اس کی طرف سے دعا ملتی ہے تو دل میں اطمینان بھر جاتا ہے اور مزید کام جاری رکھنے کی ہمت اور حوصلہ ملتا ہے۔

Related Posts