صوبہ سندھ میں سال 2024 میں خواتین کے خلاف تشدد کے ہزاروں واقعات رپورٹ ہونے کے باوجود، ایک بھی مجرم کو سزا نہ ملنے کی اطلاعات نے معاشرتی انصاف کے نظام پر سنگین سوالات اٹھا دیے ہیں۔
سسٹین ایبل سوشل ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن (SSDO) کی حالیہ رپورٹ کے مطابق، 2024 میں سندھ میں مجموعی طور پر 1,781 صنفی بنیاد پر تشدد کے واقعات رپورٹ ہوئے، جن میں 134 عزت کے نام پر قتل، 243 ریپ، 2,645 اغوا، اور 375 گھریلو تشدد کے کیس شامل ہیں۔ تشویش کا باعث یہ ہے کہ ان تمام کیسز میں سے کسی میں بھی مجرم کو سزا نہیں دی گئی۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سندھ کے دیہی اضلاع، خاص طور پر سانگھڑ، خیرپور، اور دادو میں خواتین کے خلاف تشدد کے واقعات کی شرح زیادہ ہے۔ یہ اضلاع قبائلی اور جاگیرداری نظام کے زیر اثر ہیں، جہاں خواتین کو کمزور سمجھا جاتا ہے اور قانونی تحفظ کی کمی ہے۔
ایس ایس ڈی او کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر سید کوثر عباس نے کہا کہ یہ اعداد و شمار پولیس کے ذریعے حاصل کردہ معلومات پر مبنی ہیں اور ان میں سے کسی بھی کیس میں سزا نہ ملنا عدلیہ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے۔
یہ صورتحال اس بات کی غمازی کرتی ہے کہ سندھ میں خواتین کے حقوق کے تحفظ کے لیے مؤثر قوانین اور ان کے نفاذ کی ضرورت ہے۔ اگر فوری طور پر اصلاحات نہ کی گئیں تو خواتین کے خلاف تشدد کے واقعات میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔
حالیہ رپورٹس کے مطابق، سندھ میں خواتین کے خلاف تشدد کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے، خاص طور پر دیہی علاقوں میں جہاں خواتین کو معاشرتی اور قانونی تحفظ کی کمی کا سامنا ہے۔ ان علاقوں میں خواتین کی تعلیم کی کمی، جاگیرداری نظام کی موجودگی، اور پولیس کی جانب سے عدم دلچسپی جیسے عوامل اس صورتحال کو مزید پیچیدہ بنا رہے ہیں۔
یہ رپورٹ اس بات کی غمازی کرتی ہے کہ سندھ میں خواتین کے خلاف تشدد کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے اور ان واقعات میں ملوث افراد کو سزا نہ ملنا عدلیہ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے۔ اگر فوری طور پر اصلاحات نہ کی گئیں تو خواتین کے خلاف تشدد کے واقعات میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔