حماس نے اس بات پر آمادگی ظاہر کی ہے کہ فائر بندی کے بعد اپنے جنگجوؤں کو واپس بلائے گی اور انھیں کسی قسم کی عدالتی کارروائی یا تعاقب نہ کرنے کی ضمانت دی جائے گی۔
عالمی ذرائع ابلاغ کے مطابق مصر کی ثالثی میں قاہرہ میں جاری امن مذاکرات کے دوران حماس نے یہ بھی تسلیم کیا کہ وہ غزہ کے حکومتی امور کی براہ راست ذمہ داری نہیں سنبھالے گی۔
اس کے ساتھ ہی یہ بات بھی واضح کی گئی کہ امریکہ نے ثالثوں کو اپنے اس موقف سے آگاہ کیا ہے کہ وہ غزہ کو غیر مسلح کرنے کے مطالبے پر قائم ہے۔
حماس کے ایک عہدے دار نے عندیہ دیا کہ تنظیم جنگ کے خاتمے کے لیے ایک “معاہدہ” کرنے پر تیار ہے، جس میں تمام باقی ماندہ قیدیوں کی ایک ہی بار رہائی اور پانچ سالہ جنگ بندی شامل ہو گی۔
فرانسیسی خبر رساں ایجنسی کے مطابق عہدے دار کا کہنا تھا کہ “حماس ایک ایسے معاہدے پر تیار ہے جس میں تمام قیدیوں کا ایک ساتھ تبادلہ اور پانچ سال کے لیے جنگ بندی شامل ہو”۔
انھوں نے مزید کہا کہ “ہم امید کرتے ہیں کہ حماس کا نقطہ نظر قبول کیا جائے گا، جس سے مکمل جنگ بندی، اسرائیلی فوج کا مکمل انخلاء، قیدیوں کے تبادلے کے سنجیدہ معاہدے اور فوری اور وافر مقدار میں امداد کی فراہمی کی ضمانت دی جائے گی”۔
یاد رہے کہ 17 اپریل کو حماس نے اسرائیل کی اس پیشکش کو مسترد کر دیا تھا، جس میں 45 دن کی جنگ بندی کے بدلے 10 زندہ اسرائیلی قیدیوں کی رہائی کی بات کی گئی تھی۔ حماس نے اس کے بجائے مکمل جنگ بندی اور اسرائیلی فوج کے غزہ سے انخلاء کے ساتھ تمام قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا تھا۔
دوسری جانب، اسرائیل نے اس بات پر اصرار کیا ہے کہ صرف تمام قیدیوں کی واپسی اور حماس و دیگر فلسطینی دھڑوں کا مکمل غیر مسلح ہونا ہی جنگ بندی کی بنیاد ہو سکتا ہے، نہ کہ مکمل جنگ کا خاتمہ یا مکمل انخلاء۔
واضح رہے کہ اسرائیلی فوج کے اندازوں کے مطابق اب بھی 58 قیدی غزہ کی پٹی میں موجود ہیں، جن میں سے 34 ہلاک ہو چکے ہیں۔