دو ہفتے ہونے کو ہیں جب ہم نے واضح طور پر لکھا کہ اسرائیل کی یقینی شکست کو فتح میں بدلنے کے لئے ترکی نے اپنی خدمات فراہم کردی ہیں۔ امریکہ، اسرائیل اور ترکی شام پر دہشت گردی کی یلغار کی صورت اس ہدف کو حاصل کرنے کی کوشش میں ہیں۔
ہماری اس بات کا ان مذہبی جنونیوں کی جانب سے مذاق اڑایا گیا جن میں سے کچھ خود کو جماعتیے باور کراتے ہیں تو ایک بڑی تعداد ان کی بھی ہے جو ہمارے ہی دیوبندی مسلک میں فرقہ واریت کی دکان رکھتے ہیں۔
دہشت گردوں نے جس دمشق تک پہنچنے میں دس دن لگائے تھے۔ اسی دمشق تک اسرائیل کے ٹینک صرف 48 گھنٹے میں پہنچ چکے ہیں۔ دہشت گردوں کو مزاحمت بشار نے دینی تھی جو اس نے نہ دینے کا فیصلہ کیا۔
سوال یہ ہے کہ اسرائیلی ٹینکوں کو مزاحمت دینا کس کی ذمہ داری تھی ؟ یہ تصور بھی نہ کیجئے کہ ان ٹینکوں کو مزاحمت دینے کی ذمہ داری جولانی اور اس کی ایچ ٹی ایس کی تھی یا ہے۔
مزاحمت دشمن کو دی جاتی ہے، اسرائیل جولانی کا دشمن نہیں سرپرست ہے۔ وہ کیوں دینے لگا مزاحمت ؟ صرف یہی نہیں کہ اسرائیل کے ٹینک دمشق کے تقریبا دروازے پر ہیں۔ بلکہ یہی اسرائیل دمشق میں جولانی کے جلوہ افروز ہوتے ہی اس مشن پر لگ گیا ہے کہ شام کی کوئی ایک بھی دفاعی تنصیب محفوظ نہ رہے۔
شام کی نیوی، فضائیہ، اور بری فوج کی تمام تنصیبات تباہ کی جا رہی ہیں۔ اور جولانی کیا ترکی کو بھی اس پر کوئی اعتراض نہیں۔ یہ ہے وہ تماشا جس کی نوید دیتے ہوئے تین دن سے ہمارے مذہبی جنونی سوشل میڈیا پر “شام میں صبح” کا ٹرینڈ چلا رہے تھے۔
شام کی اس صورتحال کے بہت سے پہلو ہیں۔ ہر پہلو اپنے حصے کا مستقل کالم چاہتا ہے۔ اور ہم لکھیں گے انشاءاللہ۔ زیر نظر کالم میں ہم اپنے ہاں کی بات کرنا چاہتے ہیں۔
ہم اس سوال کا جائزہ لینا چاہتے ہیں کہ ہمارا نوجوان سوچے سمجھے بغیر اس حد تک کیوں چلا جاتا ہے کہ نیتن یاہو کے مشن کی تکمیل کو بھی “صبح” سے تعبیر کرنے لگتا ہے ؟ ایسا کیوں ہوتا ہے کہ جب امریکہ کسی مسلم ملک کو تباہ کرنے کے لئے ہتھیار اور فنڈز فراہم کرکے دہشت گردوں کی مدد کرتا ہے تو ہمارا مذہبی نوجوان اس مدد کو “نصرت خداوندی” ماننے اور ثابت کرنے پر تل جاتا ہے ؟
برصغیر پاک و ہند ہی نہیں بلکہ عرب دنیا میں بھی اس کی بنیاد ان نام نہاد مذہبی سکالروں نے ڈالی ہے جن کے لٹریچر نے “خلافت” کا رومانس پیدا کیا ہے۔ انہیں تو اپنی کتابیں بیچنے اور چندوں سے غرض تھی سو پوری کرلی۔ لیکن نتیجے میں عالم عرب اور برصغیر پاک و ہند دونوں ہی جگہ اب ایک بعد دوسری نسل ان کی آرہی ہے جو ہر اس گدھے کو صلاح الدین ایوبی مان لیتی ہے، جو پریس کانفرنس کے لئے ایک عدد پگڑی اور پہلو میں سجی کلاشنکوف کا اہتمام کرلے۔ بس جو بھی یہ کرلے وہ عالم عرب میں صلاح الدین ایوبی ہوجاتا ہے اور پاک و ہند میں محمد بن قاسم۔
ہمارا یہ نوجوان عقل سے اتنا فارغ ہے کہ یہ تک نہیں جانتا کہ جس خطے میں ہم رہ رہے ہیں ، یہ تو کبھی ایک دن کے لئے بھی کسی خلافت کے زیر نگیں نہیں رہا۔ افغانستان میں پر بارہ سو سال سے مسلمان حکومت کر رہے ہیں۔ اور وہ کسی بھی اموی، عباسی یا عثمانی خلیفہ کے تحت نہیں رہے۔
برصغیر پر مسلمانوں نے صدیوں حکومت کی ہے۔ اور کبھی بھی عملا کسی خلافت کے تحت نہیں رہے۔ گویا خلافت اس خطے کے سرے سے ڈی این اے میں ہی نہیں ہے۔
عقل کے اندھوں کے لئے بتاتے چلیں کہ جب دہلی پر خاندان غلاماں کی حکومت تھی۔ تو انہوں نے بغداد میں بیٹھے آخری عباسی خلیفہ کو پیغام بھجوا دیا تھا کہ ہم رسما آپ کی خلافت کو سرپرستی قبول کرتے ہیں۔ لیکن آپ کو سلطنت دہلی آنے یا اس کے معاملات میں دخل کی اجازت کسی صورت نہیں ہوگی۔ نہ ہی ہمیں آپ کی کوئی مدد چاہئے۔
گویا عباسی خلیفہ کے ساتھ خاندان سلاطینِ دہلی نے وہی حرکت کی جو پاکستانی مسالک اپنے بزرگوں کے ساتھ کرتے ہیں۔ اور وہ یہ کہ اپنی تنظیم یا ادارے کے لٹریچر کی لوح پر لکھ لیتے ہیں “زیرسرپرستی استاد العلماء حضرت فارغ شاہ دامت برکاتہم” لیکن اس حضرت کو اس ادارے کے معاملات میں چوں کرنے کی بھی اجازت نہیں ہوتی۔ حتی کہ اس غریب کو سرپرستی کی تنخواہ تک نہیں دیتے۔
صرف یہی نہیں کہ سلاطینِ دہلی نے عباسی خلیفہ کو فالتو قسم کا سرپرست بنا لیا تھا۔ بلکہ جب اسی عباسی خلیفہ کو ہلاکو خان نے قالین میں لپیٹ کر اس پر گھوڑے دوڑا دیئے اور مار دیا تو سلطنت دہلی پر سلطان ناصرالدین محمود کی حکومت تھی۔
وہ بس نام کے ہی حکمران تھے، سلطنت ان کے سپہ سالار غیاث الدین بلبن چلاتے تھے۔ یہ بلبن ذاتی طور پر ہمارے سپر فیوریٹ ہیں۔ جس کی وجہ اگلی سطور میں آرہی ہے۔ آپ ان کی دور اندیشی و معاملہ فہمی دیکھئے کہ جب خلیفہ بغداد کی موت کی خبر دہلی پہنچی تو سلطان ناصر الدین محمود نے بلبن سے رائے مانگی کہ ہمیں کیا کرنا چاہئے ؟ غیاث الدین بلبن نے جواب دیا
“ہمیں ہلاکو خان کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم کرکے عدم جارحیت کا معاہدہ کرنا چاہئے”اور اسی پر عمل ہوا۔ ہلاکو خان تک جب یہ آفر پہنچی تو اس نے اس مسرت کے ساتھ اسے قبول کیا کہ ہندوستان کے ساتھ جڑی اپنی سرحدوں کے کمانڈر کو درج ذیل حکم نامہ بھیجا
“اگر کوئی منگول گھوڑا غلطی سے بھی سلطان ناصر الدین شاہ کی سلطنت کی حدود میں قدم رکھ دے تو تمہیں حکم دیا جاتا ہے کہ اس گھوڑے کی چاروں ٹانگیں کاٹ ڈالو”
ہلاکو خان کے ابا حضور کو بھی اندازہ نہ تھا کہ بلبن کرنے کیا جا رہا ہے۔ یہ بلبن ہی تھا جس نے فوری طور پر نئے قلعے، اسلحے کے کارخانے، گھوڑوں کی افزائش کے لاتعداد مراکز ہی تعمیر نہ کروائے بلکہ اس زمانے کے حساب سے ملٹری انٹیلی جنس کا ایک نہایت فعال اور ماڈرن ادارہ کھڑا کیا۔ اور اس کے جاسوس منگول سلطنت میں پھیلا دئے جو لگاتار رپورٹیں بھیجتے۔
اس نے سرحدی چوکیوں کو از سر نو تعمیر کرایا، اور فوج کی تعداد میں تیزی سے اضافہ کیا۔ یہ سب اس نے پلک جھپکتے ہی نہ کردیا تھا۔ بلکہ ایک طویل مدت لگی تھی اور اس کام میں اصل تیزی تب آئی تھی جب سلطان ناصر الدین محمود کے انتقال کے بعد 1266 میں یہ خود سلطان بن گیا۔ جب بلبن کے انتہائی باعتماد کمانڈر اس سے پوچھتے کہ یہ تیاری کس لئے ہو رہی ہے ؟ منگولوں سے تو ہمارا دوستی کا معاہدہ ہے۔ تو ہو کہتا “وہ آئیں گے، ایک دن آئیں گے”
غیاث الدین بلبن 1266سے 1286 تک حکمران رہا۔ اس کا پورا دور گزر گیا مگر منگول نہ آئے۔ لیکن انتقال کے وقت یہ جدید فوجی قلعے، ہتھیار، گھوڑے، اور چھ لاکھ کا بڑا فوجی لشکر تیار چھوڑ کر گیا۔
چنانچہ منگول جب عرب دنیا سے پٹ کر واپسی کرنے لگے تو عالم عرب سے بیدخلی کے بعد یہ سلطنت دہلی کی ہی سرحدوں پر آبیٹھے اور دہلی پر یلغار کی تیاری کرنے لگے جس کے لئے انہیں تازہ کمک کا انتظار تھا۔ چنانچہ غیاث الدین بلبن کا لشکر علاء الدین خلجی کے کام آیا۔ منگولوں کے جس خاتمے کا ابتدائیہ عربوں نے لکھا تھا اس کا تتمہ علاء الدین خلجی نے لکھ ڈالا۔
ہمیں یہ کہنے کی اجازت دیجئے کہ غیاث الدین بلبن خوش قسمت تھا کہ اس کے دور میں وہ لٹریچر نہ تھا جو پلاسٹک کے محمد بن قاسم اور صلاح الدین ایوبی تیار کرتا ہے۔ ورنہ جس دن اس نے خلیفہ کے قتل پر ہلاکو خان سے دوستی کا معاہدہ کیا تھا اسی دن اس کے خلاف کوئی ابومحمد الجولانی لانچ کردیا گیا ہوتا۔ اور دہلی پر ہندو راج اسی زمانے میں قائم ہوجاتا۔
اس کے لئے انہیں مزید ساڑھے چھ سو سال انتظار نہ کرنا پڑتا۔ رہ گئے وہ جو امریکی صدر کی امداد کو نصرت خدا وندی سمجھ بیٹھتے ہیں تو ان سے ہمیں بس یہی کہنا ہے کہ اسلام کے لئے سب سے بڑا خطرہ آپ ہیں۔ کیونکہ نیتن یاہو تب تک اپنا ہدف حاصل ہی نہیں کرپاتا جب تک اسے اردگانوں اور آپ کی حمایت نہ مل جائے۔
ہمارے منہ خاک لیکن لگ ہمیں یہی رہا ہے کہ دمشق تک اپنے ٹینک پہنچا کر نتین یاہو نے اردگان کو سگنل دیدیا ہے کہ آدھا میرا ہوا، آدھا تم رکھ لو۔ جاتے جاتے ایک اپیل بھی کرنا چاہتے ہیں۔ مولانا مودودی اور حسن البناء کی مغفرت کے لئے دعاء ضرور کیجئے گا۔ یہ انہی بزرگوں کی برکت ہے کہ شام میں صبح ہوگئی !