بچوں کا قتل عام اور حق دفاع

مقبول خبریں

کالمز

"Conspiracies of the Elites Exposed!"
پینشن نہیں، پوزیشن؛ سینئر پروفیشنلز کو ورک فورس میں رکھنے کی ضرورت
Role of Jinn and Magic in Israel-Iran War
اسرائیل ایران جنگ میں جنات اور جادو کا کردار
zia
ترکی کا پیمانۂ صبر لبریز، اب کیا ہوگا؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

اقوام متحدہ کے ادارے یونیسیف نے غزہ پر اسرائیل کی وحشیانہ بمباری کے حوالے سے جاری کردہ اپنے بیان میں کہا ہے کہ اسرائیلی بمباری سے روزانہ غزہ میں اوسطاً 400 سے زائد فلسطینی بچے شہید اور زخمی ہو رہے ہیں۔ یونیسیف کے اعداد و شمار کے مطابق اب تک اسرائیلی بمباری سے 2360 فلسطینی بچے شہید اور 5364 بچے زخمی ہوئے ہیں۔

 یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ جنگ کے دوران سب سے پہلے سچائی کا قتل ہوتا ہے۔ بلاشبہ سچائی کے بے دردی کے ساتھ قتل سے ہی جنگ کے شعلوں کو ہوا ملتی ہے اور ہم اس کا بدترین مظاہرہ آج اپنی آنکھوں سے مقبوضہ فلسطین کے محصور شہر غزہ میں بخوبی دیکھ رہے ہیں۔ سچائی کو اگر جنگ کا پہلا مقتول قرار دیا جائے تو یونیسیف کی درج بالا رپورٹ واضح کرتی ہے کہ غزہ پر اسرائیل کی وحشیانہ بمباری میں دوسرا نشانہ معصوم فلسطینی بچے ہیں، جنہیں اسرائیل بڑی بے رحمی سے قتل کر رہا ہے۔
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال (یونیسیف) کے یہ اعداد و شمار غزہ کی صورتحال کا بہت ہی بھیانک اور قیامت خیز منظر پیش کر رہے ہیں۔ ان سطور کی تحریر تک اسرائیل کی بمباری کے نتیجے میں اموات کی مجموعی تعداد چھ ہزار سے کچھ اوپر ہوچکی ہے۔ ان چھ ہزار میں 2360 بچے ہونے کا مطلب یہ ہے کہ بالغ مردوں، بالغ خواتین اور بوڑھوں کی نسبت اسرائیل کی ہلاکت خیز کارروائیوں میں بچے سب سے زیادہ مارے جا رہے ہیں۔
اسرائیلی درندگی کا شکار ہونے والے معصوم فلسطینی بچوں کے متعلق یونیسیف کی یہ رپورٹ ایسے وقت سامنے آئی ہے جب امریکی صدر بڑی ڈھٹائی کے ساتھ اسرائیل کے سفاکانہ حملوں کو اسرائیل کا “حق دفاع” قرار دے کر سند جواز بخشتے نظر آ رہے ہیں اور نہ صرف خود پوری طاقت کے ساتھ اسرائیل کے ہاتھوں فلسطینی بچوں کے قتل عام کی حمایت کر رہے ہیں بلکہ اپنے اتحادیوں کو بھی اسرائیل کے ساتھ تعاون پر آمادہ کرنے میں مصروف ہیں اور انہیں دعوت دے رہے ہیں کہ وہ بھی امریکا کی طرح اسرائیل کے شانہ بہ شانہ کھڑے ہوں۔
ایک رپورٹ کے مطابق غزہ کے ایک اسپتال میں 120 نوزائیدہ بچے انکیوبیٹر میں سانس لے رہے ہیں اور اسرائیلی حملوں اور صحت کے وسائل پر اسرائیلی پابندی کی وجہ سے ان نوزائیدہ بچوں کی زندگی خطرے میں ہے۔
 اسرائیل کے نام نہاد “حق دفاع” کے سب سے بڑے وکیل امریکی صدر جناب جو بائیڈن اور ان کے تمام عالمی حواریوں سے سوال ہے کہ ہزاروں بچوں کو قتل کرنا اور سینکڑوں نوزائیدہ بچوں کی سانسیں روک کر بیٹھنا آخر دنیا کے کس قانون اور اخلاقیات کی رو سے “حق دفاع” کہلاسکتا ہے؟
یونیسیف کی رپورٹ نے اسرائیل کے “حق دفاع” کی قلعی کھول کر رکھ دی ہے۔ امریکی صدر کے اندر، کانگریس وومین الہان عمر کے بقول، اگر معمولی انسانیت بھی موجود ہے تو وہ سچائی کی لاش کے پہلو میں غزہ کے معصوم بچوں کو دفنانے کے اس وحشیانہ کھیل کا “حق دفاع” کی آڑ میں دفاع نہیں کریں گے۔  

Related Posts