ڈاکٹر سے ڈاکٹر تک

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

 پرانے وقتوں میں ڈاکٹر بہت کم ہوا کرتے۔ سو بیمار بھی بہت کم ہوا کرتے تھے۔ موسمی بخار اور نزلہ زکام ہی معمول کی بیماریاں تھیں۔ ہاں کسی کو ماں کی بددعاء یا فقیر کی آہ لگ جاتی تو دانت یا کان کے درد میں مبتلا ہوجاتا۔ تشویشناک مریضوں کی اکثریت وہ ہوتی جو ٹرک اور بس کے تصادم میں اوپر پہنچنے کے بجائے ہسپتال پہنچ جاتے۔

تب پبلک ٹرانسپورٹ کم اور شاہراہیں شہروں میں بھی یکطرفہ پر دو طرفہ تھیں اور تنگ الگ۔ سو تصادم آمنے سامنے کے ہوتے اور ہر دوسرے تیسرے ہفتے 20 ہلاک چالیس زخمی کی خبر اخبارات میں نظر آتی۔ پھر نواز شریف کی حکومت آئی اور اس نے دو رویا شاہراہوں کا جال پھیلا کر قوم کو مزید معذور ہونے سے بچا لیا۔ یوں پاکستان نئے دور یعنی اکیسویں صدی میں دو رویا سڑکوں کے ساتھ داخل ہوا ۔

نئی صدی تھی، سو لوگ بھی نئے تھے۔ اور لوگ نئے تھے تو ڈاکٹر بھی نئے تھے۔ مجھے یاد ہے وہ بیسویں صدی والا ڈاکٹر بہت بڑی بے ایمانی بھی کرتا تو یہ کہ پچاس روپے فیس پتلون میں اڑسنے کے بعد جو دوا لکھ کر دیتا وہ ایسی دیتا کہ مریض پہلے ہی چکر پر ٹھیک نہ ہو جائے۔ کم از کم پچاس کا ایک نوٹ مزید دینے کو حاضر ہو پھر بیشک صحت مند ہوجائے۔

مطب بند ہوتا تو شٹر کو چائنا والے دو عدد تالے لگے ہوتے۔ یوں بورڈ پڑھے بغیر بند شٹرز سے پتہ ہی نہ چلتا کہ کونسا کلینک ہے اور کونسی پرچون کی دکان ؟۔ مطب کھلتا تو کوئی ریسیپشن نہ ہوتا ہے۔ ڈاکٹر اور کمپاؤڈرہی کل اہلیان مطب ہوتے اور کمپاؤڈر کمپاؤڈری کے ساتھ مطلب کے جھاڑو پوچے اور چوکیداری کے اضافی قلمدان بھی رکھتا۔ بھروسہ اس پر اپنا ڈاکٹر ٹکے کا نہ کرتا۔ جس کا پتہ یوں چلتا کہ فیس ڈاکٹر صاحب ہر حال میں بدست خود وصول فرما تے اور پتلون کی جیب میں اڑستے جاتے۔ گھر جاتے تو بیگم کو ساتھ ملا کر ان مڑے تڑے پچاس کے نوٹوں کو استری کر لیتے۔ بیگم کسی ہفتہ صفائی کے نتیجے میں انکم کم ہونے کی شکایت کرتی تو وہ فرماتے

ڈارلنگ ! بس کسی طرح یہ مہینہ گزار لو۔ اگلے مہینے ساون شروع ہوجائے گا، پھر مریض ہی مریض ہوں گے۔

دور نے گزرنا ہوتا ہے، سو وہ دور بھی نہ رہا۔ اب ہم کھڑے ہیں اکیسویں صدی میں۔ جہاں وہ بیسویں صدی والا ڈاکٹر ایکسپائر ہوچکا۔ اور اس کی جگہ لے لی ہے نئے دور کے نئے ڈاکٹر نے۔ جتنا یہ ڈاکٹر خودعجیب و غریب ہے اتنی ہی عجیب و غریب یہ بیماریاں ساتھ لایا ہے، جس کے لئے اسے جراثیمی امور کے سائنسدانوں کی مدد حاصل ہے۔

اس کے کلینک کی دیوار شیشے کی ہے۔ سلائیڈنگ ڈورز ہیں اور سلائیڈنگ ہی کھڑکیاں۔ جھاڑو پوچے کے لئے سوئیپر رکھا ہوا ہے۔ باہر ایک کاؤنٹر ہے اور کاؤنٹر پر ایک دوشیزہ ہے۔ شکل سے منحوس ہے مگر ہے تو دوشیزہ ہی۔

اندر ڈاکٹر صاحب کے ہمراہ ایک اسسٹنٹ چوکس و تیار۔ جو بوقت ضرورت مریض کا ناڑا کھولنے کی ڈیوٹی انجام دیتا ہے اور ماشاءاللہ کلینک میں اے سی بھی چل رہا ہے۔ یوں پہلے صرف ڈاکٹر کی فیس دینی پڑتی تھی جو پچاس روپے دیدیتے تھے۔

اب ڈاکٹر کے کلینک کے کھڑکی شیشوں کا خرچہ بھی ہم نے ہی تاحیات قسطوں میں اٹھانا ہے۔ اے سی کا بل بھی میرے اور آپ کے ہی ذمہ ہے۔ وہ باہر والی دوشیزہ اور اندر والے اسسٹنٹ اور سوئیپر کی تنخواہیں بھی مریض کی جیب سے جائیں گی۔ یوں جاتے ہم ڈاکٹر کے پاس ہیں مگر فیس ہمیں ان چار لوگوں کو ادا کرنا ہوتی ہے۔

آپ نے غور کیا ؟ اس اکیسویں صدی والے ڈاکٹر کے اسٹاف میں کمپاؤڈر کا ذکر نہیں آیا۔ ہے نا عجیب بات ؟ سوال یہ ہے کہ کمپاؤڈر گیا کہا ں؟ اگر کوئی ارتقاء ہوا ہے تو اس کی جگہ لینے والا اب کیا کہلاتا ہے ؟۔ یہی تو سب سے بڑی واردات ہوئی ہے۔ کمپاؤڈر کی فارماسیوٹیکل کمپنیوں نے نسل ہی ختم کردی۔ اب آپ کو مطب سے دوا نہیں صرف پرچی ملتی ہے۔ اور پرچی بھی نہیں بلکہ پرچیاں ملتی ہیں۔ وہ پچاس روپے والا ڈاکٹر اتنا وضعدار تھا کہ ہم منہ بنا کر جاتے تو وہ کہتا۔

منہ کیوں لٹکا رکھا ہے ؟ ہلکا سا بخار ہے دو دن میں ٹھیک ہوجاؤ گے

اور یہ آج والے نمونے کے پاس اگر ہنستے مسکراتے جایئے تو یہ فورا کہتا ہے

مجھے لگتا ہے آپ اپنی بیماری کو سیریس نہیں لے رہے !

سیریس ؟ ہلکا سا زکام ہی تو ہے، اس میں سیریس کیا چیز ہے ؟

نہیں بھئ ! مجھے یہ کچھ اور لگ رہا ہے۔ بس دعاء کیجئے کہ جو مجھے لگ رہا ہے وہ ہو نا۔ یہ پرچی لیجئے، اور “لٹ مچاؤ لیب” سے ٹیسٹ کروا کر رپورٹس لائیے تب ہی صورتحال واضح ہوگی۔

جو شخص کچھ ہی دیر قبل بہت پر اعتماد قدموں سے چلتا کلینک میں داخل ہوا تھا۔ وہ خود پر آیت الکرسیاں پڑھتے ٹیسٹ کروانے کے لئے روانہ ہوجاتا ہے تو اکیسویں صدی کا ڈاکٹر پیچھے سے آواز دے کر کہتا ہے

میں لٹ مچاؤ لیب کے سوا کسی بھی لیب پر ٹرسٹ نہیں کرتا۔ ٹیسٹ وہیں کے ہونے چاہئیں۔

اور جب وہ دس ہزار روپے کے ٹیسٹ کرا کر رپورٹس کا لفافہ ڈاکٹر کے ہاتھ پر لا رکھتاہے تو یہ رپورٹ پر ایک نظر ڈالتا ہے اور پھر چہرے پر مصنوعی تبسم پھیلا کر یوں گویا ہوتا ہے

شکر الحمدللہ ! ! ! ! ! مبارک ہو سر ! مجھے جو خدشہ تھا وہ غلط ثابت ہوا۔ یہ زکام ہی ہے۔ پانچ دوائیں لکھ کر دے رہا ہوں۔ باہر فارمیسی ہے، اسی سے یہ ساری دوائیاں لیجئے گا، کیونکہ باقی سب جعلی دوائیاں ہی فروخت کرتے ہیں۔ پورے شہر میں اصلی دوائیاں صرف اسی فارمیسی سے ملتی ہیں۔ انشاءاللہ دو تین ہفتے میں ٹھیک ہو جائیں گے۔

سر ! زکام کے لئے اتنی ساری دوائیں ؟”

یہ عام زکام نہیں ہے۔ اسے ہلکا مت لیجئے۔ معمولی سی بھی غفلت برتی توکووڈ 19 میں کنورٹ ہوجائے گا۔

یوں یہ اکیسویں صدی کا ڈاکٹر لیب اور فارماسیوٹیکل کمپنی دونوں سے کمیشن پاتا ہے۔ اور اس لئے پاتا ہے کہ لیب اور فارما کے لئے میری اور آپ کی جیب پر ڈاکہ ڈاکٹر صاحب نے ہی ڈالا ہے۔ یہ محض اتفاق تو نہیں ہوسکتا کہ جس طرح “ڈاکے” والا ڈاکو کہلاتا ہے، اسی طرح ڈاکٹر بھی ڈاکے سے ہی ماخوذ لگ رہا ہے۔

المیہ یہ ہے کہ جنہوں نے ڈاکٹر ی کی مبینہ تعلیم بیچ میں چھوڑ دی 2000 کا کپڑا 4400 میں بیچ کر لوٹ رہے ہیں اور جو ڈاکٹری پوری سیکھ گئے وہ وہی لوٹ مار لیبارٹریوں اور فارما سیوٹیکل کمپنیوں کی مدد سے کر رہے ہیں۔ ایسے میں اعتماد کے لائق ایسا ڈاکٹر بس ایک ہی بچا ہے جو فارما سیوٹیکل کمپنی یا کسی لیب کا یجنٹ نہ ہوگا، مگر وہ علاج نہیں کر سکتا۔
پی ایچ ڈی ڈاکٹر !