مسلح افواج کو بدنام کرنے پر سزا کا قانون اور آزادئ اظہارِ رائے کے مسائل

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ نے گزشتہ روز مسلح افواج کو بدنام کرنے پر سزا کا بل منظور کیا جس کے تحت تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 500 میں ایک اور شق کا اضافہ ہوا۔

نئے مسودۂ قانون کی منظوری کے بعد پاک فوج کے کسی بھی سپاہی یا افسر کو بدنام کرنے والے افراد کو 2 سال تک قید اور 5 لاکھ روپے تک جرمانہ کیا جاسکے گا۔آئیے اِس بل کی منظوری اور اس پر سامنے آنے والے ردِ عمل کا جائزہ لیتے ہیں اور یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ کیا اس بل کی منظوری سے آزادئ اظہارِ رائے کوبھی خطرات لاحق ہیں۔

گزشتہ برس پیش کیے گئے بل کی قانونی حیثیت 

دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ کریمنل لاء ترمیمی ایکٹ بل 2020ء گزشتہ برس پی ٹی آئی کے رکنِ قومی اسمبلی امجد علی خان نے ایک پرائیویٹ ممبر بل کے طور پر پیش کیا جس کی منظوری گزشتہ روز عمل میں لائی گئی۔

وزیرِ انسانی حقوق ڈاکٹر شیریں مزاری نے گزشتہ برس 16 ستمبر کو سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں کہا کہ وہ صحافی جو پارلیمنٹ کی خبریں نشر کرتے ہیں، انہیں پرائیویٹ ممبربلز اور حکومتی بلز کا فرق معلوم ہونا چاہئے۔

ڈاکٹر شیریں مزاری نے کہا کہ اخبارات کو چاہئے کہ غلط سرخیاں شائع نہ کریں، امجد علی خان نے جو بل پیش کیا وہ پرائیویٹ ممبر بل ہے جس کا سرکاری بلز سے کوئی تعلق نہیں۔ 

بل

اپوزیشن کی تنقید اور آزادئ اظہارِ رائے

قائمہ کمیٹی اجلاس کی صدارت گزشتہ روز پی ٹی آئی کے رکنِ قومی اسمبلی راجہ خرم نواز نے کی۔ اپوزیشن جماعتوں ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے اراکین نے بل کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ اس قانون کی آڑ میں آزادئ اظہارِ رائے پر قدغن بھی لگائی جاسکتی ہے۔

ووٹنگ کے دوران بل کی مخالفت اور حق میں پانچ، پانچ ووٹ آئے جس کے نتیجے میں چیئرمین قائمہ کمیٹی خرم نواز کو حرکت میں آنا پڑا۔ خرم نواز نے بل کے حق میں ووٹ دے کر اس کی منظوری میں اہم کردار ادا کیا۔ 

پاک فوج کا مذاق اڑانا اور تمسخر کرنا جرم قرار

اگر ہم مذکورہ بل کا جائزہ لیں تو یہ کہتا ہے کہ جو شخص مسلح افواج کا مذاق اڑائے، افواج کے وقار کو نقصان پہنچائے یا بدنام کرے اسے 2 سال قید اور 5 لاکھ جرمانے میں سے کوئی ایک سزا یا دونوں سزائیں ایک ساتھ دی جاسکتی ہیں۔

یہ بل پاکستان کے پینل کوڈ 1860ء اور کوڈ آف کریمنل پراسیجر 1898ء میں ترمیم کیلئے فوجداری ترمیمی ایکٹ بل 2020ءکہلاتا ہے اور بظاہر اس بل میں کوئی ایسی بات نہیں ہے جس پر تنقید کی جائے۔ 

صحافیوں پر مقدمات کا معاملہ 

گزشتہ برس ستمبر سے بعض صحافیوں کے خلاف مقدمات کا اندراج شروع ہوا جن میں پیمرا کے سابق چیئرمین ابصار عالم، کراچی کے صحافی بلال فاروقی اور اسد علی طور نامی صحافی شامل ہیں۔

مذکورہ صحافیوں کے خلاف پاک فوج کے خلاف اکسانا، سنگین غداری، آرمی کے خلاف بغاوت پر اکسانا اور مذہبی منافرت پھیلانے جیسے سنگین الزامات عائد کیے گئے، جس سے آزادئ اظہارِ رائے پر مختلف سوالات اٹھنے لگے۔ 

ایک اور سوال 

سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر آج اپنے پیغام میں عوامی ورکرز پارٹی کے اہم سیاسی رہنما عمار رشید نے کہا کہ سی پیک، پی آئی اے اور واپڈا سے لے کر اہم قومی اداروں تک کے سربراہان ریٹائرڈ یا حاضر سروس پاک فوج کے افسران ہیں۔

عمار رشید نے کہا کہ اینٹی کرپشن سمیت کسی بھی ادارے پر تنقید کرنا کیا پاک فوج پر تنقید نہیں کہلائے گا؟ پی ٹی آئی حکومت اب کوشش کر رہی ہے کہ عوامی رہنمائی میں کیے جانے والے احتساب کو غیر قانونی قرار دے دیا جائے۔ 

دنیا کی دیگر افواج اور پاک فوج میں فرق 

عام رائے یہ ہے کہ فوج کا کام ملک کی حفاظت کرنا ہوتا ہے لیکن دنیا کی دیگر افواج کے مقابلے میں پاک فوج کا کردار کہیں مختلف، گہرا اور مؤثر ہے۔

مثال کے طور پر دیگر ممالک کی افواج یا تو سرحد پر یا میدانِ جنگ میں ملک کی حفاظت پر مامور نظر آتی ہیں لیکن پاک فوج ان کاموں کے علاوہ قانون نافذ کرنے اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بھی پیش پیش ہے۔

کراچی میں سیلاب آجائے یا حالات پولیس اور رینجرز دونوں کے قابو سے باہر ہوجائیں تو پاک فوج کو یاد کیا جاتا ہے۔ خدانخواستہ زلزلہ یا کوئی بھی آسمانی آفت آجائے تب بھی حکومت کو پاک فوج یاد آجاتی ہے جو ہر وقت کسی بھی قسم کے حالات کا سامنا کرنے کیلئے تیار ہے۔ 

عوامی رویہ اور پاک فوج 

دیگر ممالک کے مقابلے میں پاکستان کی فوج ملک بھر میں کہیں زیادہ مقبول اور ہردلعزیز ہے۔ لوگ پاک فوج کے ایک عام سے سپاہی کو وردی میں کہیں سے گزرتا دیکھ لیں تو بعض اوقات سلیوٹ کرنا بھی پسند کرتے ہیں جو کسی اور ملک میں نہیں کیا جاتا۔

ظاہر ہے کہ دیگر ممالک کے لوگ صرف اتنا سوچتے ہیں کہ فوج کا کام ملک کی حفاظت کرنا ہے اور وہ کرتی ہے جو ملک پر کوئی احسان نہیں ہے لیکن پاکستان کے لوگ اس سے اتفاق نہیں کرتے۔

مادرِ وطن کیلئے پاک فوج نے جانوں کی جتنی قربانی دی، کسی اور ادارے نے کبھی نہیں دی۔ اس لیے پاکستان کے لوگ کسی بھی دیگر ادارے کے اہلکاروں کے مقابلے میں پاک فوج کی کہیں زیادہ عزت کرتے ہیں اور افسران اور سپاہیوں کو سر آنکھوں پر بٹھاتے ہیں۔ 

آزادئ اظہارِ رائے اور سوالات پر سوالات

ہر بار جب کوئی بل منظور کیا جاتا ہے تو اس کے مثبت اور منفی پہلو دیکھنا قانون سازوں کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ پاک فوج کے متعلق منظور کیے گئے بل کی قانونی حیثیت سے قطعِ نظر اگر یہ قانون بن گیا تو آزادئ اظہارِ رائے پر قدغن سے متعلق سوالات اٹھائے جاسکتے ہیں۔

اظہارِ رائے کی آزادی سے متعلق جب سوالات اٹھائے جائیں گے تو لازمی طور پر پاک فوج بھی ایسے سوالات کا حصہ بنے گی کیونکہ بل پاک فوج کے متعلق ہے جس سے ایک قومی ادارے کو جان بوجھ کر متنازعہ بنانے سے متعلق مزید سوالات جنم لے سکتے ہیں۔