ای او بی آئی کے سابق چیئرمین کا غیرقانونی وصول کردہ 48لاکھ روپے واپس کرنے سے انکار

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

کرا چی :ای او بی آئی پنشن فنڈ میں کرپشن کے واقعات سامنے آنے کے بعدادارے کے سابق چیئرمین نے غیرقانونی وصول کردہ 48لاکھ روپے واپس کرنے سے انکارکردیا۔

قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے منسٹری آف اوورسیز پاکستانی اینڈ ہیومن ریسورس ڈیولپمنٹ نے اسلام آباد میں9اپریل2021ء کومنعقدہ اجلاس میں وزارت کے دیگر امور کے فیصلوں کے ساتھ ای او بی آئی کے سابق چیئرمین اظہرحمید سمیت گزشتہ دس برسوں کے دوران رہنے والے دیگر چیئرمینوں کی جانب سے ای او بی آئی پنشن فنڈ سے غیر قانونی طور پر اسپورٹس کلبوں کی رکنیت حاصل کرنے اور اظہر حمید کی جانب سے ڈیفنس اتھارٹی کنٹری اینڈگولف کلب کراچی کی رکنیت کے لئے۔

3ملین روپے کی خطیر رقم وصول کرنے کے معاملہ کا سخت نوٹس لیتے ہوئے انتظامیہ کوتمام سابقہ چیئرمینوں سے کلبوں کی رکنیت فیسیں فوری طور پر واپس وصول کرکے قائمہ کمیٹی کو رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی تھی۔

ہدایات پر عملدرآمد کے لئے وفاقی سیکریٹری ، منسٹری آف اوورسیز پاکستانی اینڈ ہیومن ریسورس ڈیولپمنٹ حکومت پاکستان، عشرت علی نے فوری طور پرای او بی آئی کے بورڈ آف ٹرسٹیز کا ہنگامی بنیادوں پر اجلاس طلب کرکے بورڈ کے123ویں اجلاس منعقدہ29 -30 جولائی 2021ء میں ای او بی آئی کے گزشتہ دس برسوں کے دوران تعینات رہنے والے سابق چیئرمینوں کی جانب سے مختلف تفریحی اور اسپورٹس کلبوں کی فیسوں کے نام پربھاری رقوم کی وصولیوں کی تفصیلات طلب کرلی تھیں۔جس کے مطابق ای او بی آئی کے ایک سابق چیئرمین ظفر اقبال گوندل نے مالی سال2010-11کے دوران تفریحی کلب فیس کی مد میں 600000روپے ،سابق چیئرمین خاقان مرتضیٰ نے مالی سال 2018-19کے دوران کلب فیس کی مد میں50000روپے اور خصوصاً سابق اور بدعنوان چیئرمین اظہر حمید نے مالی سال2019-20کے دوران گالف کلب کی فیس کی مد میں 250000 روپے اور اظہر حمید نے دوبارہ مالی سال 2020-21کے دوران کلب فیس کی مد میں 2300000 روپے وصول کئے تھے۔

اس تشویشناک صورت حال پر ای او بی آئی کے بورڈ آف ٹرسٹیز نے ایک متفقہ فیصلہ کے ذریعہ ای او بی آئی کی انتظامیہ کو ادارہ کے ان تمام سابقہ چیئرمینوں سے کلب فیسوں کی مد میں وصول کردہ یہ بھاری رقوم واپس لینے کی ہدایات کی تھی جس پر سابق چیئرمین خاقان مرتضیٰ نے تو فوری طور پر اپنے ذمہ واجب الادا رقم ای او بی آئی کے پاس جمع کرادی تھی۔

مزید پڑھیں:

ایف آئی اے نے ای او بی آئی کے افسرمحمد جمیل کو گرفتار کرلیا

EOBI کے ایماندار ملازم کو 22 سالہ محنت کا صلہ نہ مل سکا

کراچی EOBI کے افسران عدالتی حکم کے باوجود 20 سال سے ترقی سے محروم

ای او بی آئی میں بدعنوان افسران نے فرض شناس افسر کومعطل کرادیا

قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی اور ای او بی آئی کے بورڈ آف ٹرسٹیز کے واضح فیصلہ کے باوجود ای او بی آئی کی قانون شکن انتظامیہ کے اعلیٰ افسران ڈیپوٹیشن پر تعینات ڈائریکٹر جنرل ایچ آر ڈپارٹمنٹ شازیہ رضوی اور ڈائریکٹر جنرل فنانس ناصرہ پروین خان اپنے سابق چیئرمین اظہر حمیدسے ڈیفنس اتھارٹی گالف کلب کی رکنیت کے نام پر حاصل کردہ بھاری رقوم کی وصولی میں انتہائی عدم دلچسپی اور سرد مہری کا مظاہرہ کر رہی ہیں جس کے باعث ان اعلیٰ افسران کی طاقت کے سامنے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی اور ای او بی آئی کے بورڈ آف ٹرسٹیز کے فیصلے بالکل بے وقعت ہوکر رہ گئے ہیں۔

ای او بی آئی کے ذرائع کا کہنا ہے کہ وفاقی حکومت نے گورنمنٹ آڈٹ اینڈ اکاؤنٹس گروپ آف پاکستان کے گریڈ20کے افسر اظہر حمید کو 19مارچ 2019ء کو دو برس کے لئے ای او بی آئی جیسے فلاحی ادارہ کا چیئرمین مقرر کیا تھا لیکن اظہر حمید نے اپنے عہدہ کا چارج سنبھالتے ہی ای او بی آئی میں ماضی کے ایک سابق اور انتہائی بدعنوان چیئرمین ظفر اقبال گوندل کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ملک کے غریب محنت کشوں کے400ارب روپے کے پنشن فنڈ کے امین کے اہم ترین منصب کی نگہبانی کے بجائے اس فلاحی ادارہ کو برطانوی وائسرائے کے انداز میں اپنی آمرانہ پالیسیوں اور مطلق العنانی اور لوٹ مار کے باعث ای او بی آئی کو ایک خود مختار ریاست بنادیا تھا۔ جس کے باعث اظہر حمید کے کے دو سالہ دور کو ای او بی آئی کی تاریخ کا سیاہ ترین دور کہا جا تا ہے۔

سابق چیئرمین اظہر حمید نے ای او بی آئی میں اپنے دو برسوں کے دوران ای او بی آئی کے مقررہ طریقہ کار کو یکسر نظر اندازکرکے جنوری2020ء میں پہلے اپنے ذاتی مفادات کی تکمیل ،پنشنرز اور حکومت کی خوشنودی حاصل کرنے کئے ادارہ کے اثاثہ جات اور بیمہ کی تشخیص کرائے بغیر وفاقی حکومت سے ای اوبی آئی پنشن میں اضافہ کا اعلان کرادیا تھا لیکن وفاقی کابینہ کے اجلاس میں پنشن میں اضافہ کی منظوری کے دوران وفاقی وزیر قانون بیرسٹر فروغ نسیم کی جانب سے پنشن میں اضافہ کے اس غیر قانونی اقدام پر اعتراض اٹھانے پر اس عمل کو روک دیا گیا تھا۔

جس پر چیئرمین ای او بی آئی اظہر حمید نے وفاقی حکومت کو سبکی سے بچانے اور پنشن میں اضافہ کے اعلان کی لاج رکھنے کے لئے سوچے سمجھے منصوبہ کے تحت نہایت عجلت میں کراچی کی ایک غیر معروف کمپنیM/s Sir Cunsultants کراچی سے بلاٹینڈر شائع کرائے تھے اور اس کمپنی سے نہایت مشکوک طریقہ سے من مانے اعداد و شمار کی بنیاد پر بیمہ کی تشخیص کروا کے اور وزیر اعظم کے معاون خصوصی زلفی بخاری کی ملی بھگت سے وفاقی حکومت کی آنکھوں میں دھول جھونک کر ای او بی آئی کی پنشن میں اضافہ کرادیا تھا۔ بعد ازاں یہ خبر منظر عام پر آنے کے بعد آڈیٹر جنرل آف پاکستان نے ای او بی آئی سے اس مشکوک بیمہ کی تشخیص کی رپورٹ پہلے ہی طلب کرلی ہے۔

بتایا جاتا ہے کہ اپنی تعیناتی کے گزشتہ دو برسوں کے دوران ای او بی آئی کے چیئرمین اظہر حمید کے آئے دن اسلام آباد کے دوروں کے باعث ای او بی آئی سے ماہانہ لاکھوں روپے کے ٹی اے، ڈی اے کی ادائیگیوں،مہنگے ہوٹلوں میں قیام وطعام ، گاڑیوں اور پٹرول کے بے تحاشہ استعمال، بھاری رقوم کے میڈیکل بلوں اور سرکاری اجلاسوں میں شرکت کے نام پربھاری فیسیں بھی ای او بی آئی کو برداشت کرنا پڑی تھیں۔

اس طرح ای او بی آئی کے سابق اور بدعنوان چیئرمین اظہر حمید کی غیر دانشمندانہ پالیسیوں اور من مانی کے باعث ای او بی آئی کو ہر سطح پر ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے ،جس کی اعلیٰ سطح پر تحقیقات کی ضرورت ہے۔

ای او بی آئی کے ذرائع کا مزید کہنا ہے کہ سابق چیئرمین اظہر حمید نےاپنے پس پردہ مقاصد کے تحت ای او بی آئی میں دیگر سرکاری محکموں سے موجودہ ڈائریکٹر جنرل ایچ آرڈپارٹمنٹ اور جی اے ڈی ڈپارٹمنٹ،میڈم شازیہ رضوی ( وزارت میری ٹائم افیئرزکی خاتون افسر اور بدعنوانی کے الزامات کے تحت ایک نیب ریفرنس میں نامزد)،میاں عثمان علی شاہ،( وزارت نیشنل فوڈ سیکیوریٹی اینڈ ریسرچ اسلام آباد کا ایک سیکشن افسر ) ڈپٹی ڈائریکٹر اورپرسنل اسٹاف افسر معاون خصوصی زلفی بخاری، ظفر علی بزدار، ڈائریکٹر بی اینڈ سی، اسلام آباد،( فیڈرل لینڈ کمیشن اسلام آباد کا افسر) ثاقب حسین، اسسٹنٹ ڈائریکٹر انٹرنل آڈٹ ڈپارٹمنٹ ہیڈ آفس( گورنمنٹ آڈٹ اینڈ اکاؤنٹس سروس کا جونیئر افسر) کو ڈیپوٹیشن پر لاکر اور ادارہ کے سینئر اور تجربہ کار افسران کو سائیڈ لائن کردیا تھا۔جس کی وجہ سے ادارہ کے چند انتہائی جونیئر اور نان کیڈر جی حضوری افسران محمد نعیم شوکت قائم خانی، ڈائریکٹر کوآرڈینینشن اور ڈائریکٹر جنرل ایڈمنسٹریشن ڈپارٹمنٹ، ہیڈ آفس،( 2007ء میں ایک کوالیفائڈ امیدوار محمد نواز کا حق مار کر اسسٹنٹ ڈائریکٹر بھرتی ہونے والا اور سندھ شہری کے ڈومیسائل کا حامل ہونے کے باوجود غیر قانونی طور پر سندھ دیہی کے کوٹہ پر بھرتی ہونے والا) میڈم نزہت اقبال، قائم مقام ڈائریکٹر ایچ آر ڈپارٹمنٹ ، شفیق احمد پتر، قائم مقام ڈائریکٹر فنانس ،( ای او بی آئی میں ہر غیر قانونی ادائیگیوں کا سب سے بڑا سہولت کار)خالد نوازمروت، قائم مقام ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل(مشکوک ایم بی اے کی ڈگری کے نام پر غیر قانونی طور پر ای او بی آئی سے لاکھوں روپے کے بقایاجات وصول کرنے کے اسکینڈل میں ملوث افسر) 2014ء میں بلا کسی تجربہ اور انٹرویو کے بھرتی شدہ قدیر احمد چوہدری،قائم مقام ڈائریکٹر لاء ڈپارٹمنٹ ہیڈ آفس کو غیر قانونی طور پر نوازشات کی بارش کرکے اورقائم مقام ڈائریکٹر کا درجہ دے کر اور 2014ء میں بلاکسی تجربہ اور انٹرویو کے بھرتی ہونے والے جونیئر اور نان کیڈر افسر کو بیک وقت پانچ(5) نہایت کلیدی عہدوں پر تعینات کرکے ای او بی آئی ہیڈ آفس میں اپنا ایک منظم نیٹ ورک قائم کرلیا تھا۔

یہ تمام کے تمام جی حضوری افسران اظہر حمید کو ان کی ریٹائرمنٹ کے دن 23لاکھ روپے کی دو ادائیگیوں میں پوری طرح ملوث تھے۔

واضح رہے کہ 18فروری2021ء کو اظہر حمید کو دو علیحدہ علیحدہ چیکوں کے ذریعہ23لاکھ روپے کی دو ادائیگیاں کی گئی تھیں۔ان میں ایک چیک ڈیفنس اتھارٹی کنٹری اینڈ گولف کلب کی رکنیت فیس کا جبکہ دوسرا چیک اظہر حمید کیLPR اور اپیلیٹ اتھارٹی کی فیسوں کے متعلق تھا۔ لیکن اظہر حمید کے جی حضوری افسران نے 23،لاکھ روپے کے دوسرے چیک کو بورڈ آف ٹرسٹیز سے جان بوجھ کر پوشیدہ رکھا تھا۔

وزارت کے سیکریٹری اورای او بی آئی کے بورڈ آف ٹرسٹیز کے صدر عشرت علی نے ای او بی آئی کو سابق اور بدعنوان چیئرمین اظہر حمید کی باقیات سے پاک کرنے کا عزم کررکھا ہے۔جس کے تحت انہوں نے منسٹری کا چارج سنبھالنے کے فورا بعد انہوں نے نا صرف سابق اور بدعنوان چیئرمین اظہر حمید کی ای او بی آئی میں دوبارہ کنٹریکٹ پر 3برسوں کے لئے مسلط ہونے کی چال کو بری طرح ناکام بنایا بلکہ اظہر حمید کے ایک خاص دست راست ڈیپوٹیشن پر تعینات محمد اعجاز الحق، ڈائریکٹر جنرل آپریشنز(نارتھ) اور معاون خصوصی زلفی بخاری کے PSO میاں عثمان علی شاہ کی بھی چھٹی کرکے ان کے اصل محکمہ واپس بھیج دیا تھا۔ ای او بی آئی کے ملازمین نے منسٹری کے اصول پرست سیکریٹری اوربورڈ آف ٹرسٹیز کے صدر عشرت علی سے اپیل کی ہے کہ وہ ای او بی آئی کو کرپشن سے مکمل پاک کرنے کے لئے اظہر حمید کی باقایات اور اس کے ذاتی مفادات کے محافظ ڈائریکٹر کوآرڈینیشن سمیت ان تمام جی حضوری افسران کو فوری طور پر انتہائی کلیدی عہدوں سے ہٹانے اور ان کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی اور ادارہ کے بورڈ آف ٹرسٹیز کے واضح احکامات کےبعد ڈائریکٹر جنرل ایچ آر ڈپارٹمنٹ اور ناصرہ پروین خان ڈائریکٹر، جنرل فنانس ہیڈ آفس نے اپنی تسلی بخش سالانہ خفیہ رپورٹ (ACR) لکھوانے کے ذاتی مفادات کے تحفظ کی خاطرر قانونی وصولی کا خط اپنے دستخطوں سے ارسال کرنے کے بجائے غیر قانونی طریقہ کار اختیار کرتے ہوئے فنانس ڈپارٹمنٹ کے ایک فرض شناس لیکن جونیئر افسر عامر جاوید، ڈپٹی ڈائریکٹر سے سابق چیئرمین اظہر حمید کو خط ارسال کرایا ۔لیکن اظہر حمید نے اس خط پر کوئی توجہ نہ دی، جس پر سابق چیئرمین اظہر حمید کو دوبارہ 29ستمبر2021ء کوعامر جاوید کے دستخطوں سے ایک اور خط بھجوایا گیا۔جس پرای او بی آئی کے سابق چیئرمین اظہر حمید نے 8اکتوبر کو ڈپٹی ڈائریکٹر فنانس ڈپارٹمنٹ ہیڈ آفس عامر جاوید کے بجائےمین محمد نعیم شوکت ،ڈائریکٹر جنرل ایچ آر اور ڈائریکٹرجی اے ڈی ڈپارٹمنٹ، کو عامر جاوید کے توسط سے فیس واپس کرنے کے بجائے ایک دھمکی آمیز جواب بھجوایا ہے۔

اپنے اس جوابی خط میں سابق چیئرمین اظہر حمید نےاپنے حق میںمختلف تاویلیں پیش کرتے ہوئے اس رقم کو قانونی اور اپنا جائز حق قرار دیتے ہوئے نا صرف 23لاکھ روپے کی خطیر رقم ای او بی آئی کو واپس کرنے سے انکار کیا ہے، بلکہ اس خط کو واپس نہ لینے کی صورت میں ای او بی آئی کو قانونی کارروائی کی دھمکی بھی دے ڈالی ہے۔

واضح رہے کہ سابق چیئرمین اظہر حمید کو گولف کلب کی فیسوں کی مد میں ادا شدہ 250000روپے اور 2300000 روپے کی بھاری رقوم سے8500 روپے ماہانہ پنشن کے حساب سے ای او بی آئی کے 300پنشنرز کوپورے ایک ماہ کی پنشن ادا کی جاسکتی تھی۔

مگرستم ظریفی ہے کہ ای او بی آئی کے سابق اور بدعنوان چیئرمین اظہر حمید غریب محنت کشوں کے پنشن فنڈ کی رقم سے گولف جیسا مہنگے کھیل سے لطف اندوز ہورہے ہیں اور دوسری طرف ای او بی آئی کے ہزاروں رجسٹرڈ بوڑھے اور بیوائیں ایک عرصہ سے اپنی پنشن کے لئے مارے مارے پھر رہے ہیں۔ادھر مزدور یونین کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ ان کلیدی عہدوں پرغیر متعلقہ افسران کی موجودگی وزارت کے اچھی ساکھ کے حامل سیکریٹری عشرت علی اور ای او بی آئی کے موجودہ ایماندار اور اصول پرست چیئرمین شکیل احمد منگنیجو کی ساکھ پر ایک سوالیہ نشان ہے 

Related Posts