فارن فنڈنگ کیس پر دئیے گئے عمران خان کے ثبوت اور الیکشن کمیشن آف پاکستان

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

فارن فنڈنگ کیس پر دئیے گئے عمران خان کے ثبوت اور الیکشن کمیشن آف پاکستان
فارن فنڈنگ کیس پر دئیے گئے عمران خان کے ثبوت اور الیکشن کمیشن آف پاکستان

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

فارن فنڈنگ کیس ملکی تاریخ کے بڑے کیسز میں سے ایک قرار دیا جاسکتا ہے جس کے نتیجے میں الزامات ثابت ہونے پر پی ٹی آئی کی وفاقی حکومت کسی بھی وقت زمیں بوس ہوسکتی ہے۔

گزشتہ روز سینئر صحافی و تجزیہ کار ظفر ہلالی نے نجی ٹی وی پروگرام کے دوران گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وزیرِ اعظم کے خلاف الیکشن کمیشن میں زیرِ سماعت فارن فنڈنگ کیس اس لیے کمزور ہے کیونکہ فنڈنگ پر پی ٹی آئی نے بہت سے ثبوت جمع کرائے ہوئے ہیں۔

آئیے فارن فنڈنگ کیس پر ظفر ہلالی کی گفتگو اور مذکورہ کیس کے دیگر پہلوؤں کا جائزہ لیتے ہیں اور یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان آج تک اس کیس میں کوئی واضح فیصلہ کیوں نہ کرسکا۔

سینئر صحافی ظفر ہلالی کی گفتگو

معروف صحافی و تجزیہ کار ظفر ہلالی نے گزشتہ روز گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ فارن فنڈنگ کیس پر پی ٹی آئی نے بہت سے ثبوت جمع کرائے ہوئے ہیں۔ ابتدا میں پی ٹی آئی ہر بات کا الزام اپوزیشن پر لگا رہی تھی لیکن بعد میں اپوزیشن نے ملکی مسائل پر درست نشاندہی کی۔

قومی احتساب بیورو کے حوالے سے بھی سینئر تجزیہ کار ظفر ہلالی نے کہا کہ نیب پر تنقید کرنے کے بعد بھی اپوزیشن کو مثبت ردِ عمل ملا۔ سپریم کورٹ نے ریمارکس دئیے کہ اپوزیشن کا یکطرفہ احتساب کیا جارہا ہے جس  کے بعد اپوزیشن الیکشن کمیشن کی طرف آگئی۔

ظفر ہلالی کے مطابق الیکشن کمیشن میں پی ٹی آئی کے خلاف کیس کمزور ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ وزیرِ اعظم عمران خان اور پاکستان تحریکِ انصاف کی طرف سے فارن فنڈنگ پر بہت سارے ثبوت دے دئیے گئے تاہم حزبِ اختلاف نے فنڈنگ کیس میں کوئی دستاویزات پیش نہیں کیں، بلکہ کچھ نہیں دیا۔ 

نواز شریف کا بیان

ہفتے کے روز سابق وزیرِ اعظم میاں نواز شریف نے پی ٹی آئی کے فارن فنڈنگ کیس پر مختلف سوالات اٹھائے۔ نواز شریف نے کہا کہ الیکشن کمیشن کیوں گھبرا رہا ہے اور کس کے کہنے پر خوف میں مبتلا ہے؟ فارن فنڈنگ کیس کا فیصلہ کیوں نہیں کیا جارہا؟ حالانکہ عمران خان کے پاس کوئی ثبوت نہیں ہے۔

لندن سے ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب کرتے ہوئے نواز شریف نے کہا کہ فارن فنڈنگ کیس کے فیصلے میں 6 سال کی تاخیر ہوئی، ٹھوس ثبوت موجود ہیں اور پھر بھی الیکشن کمیشن کوئی فیصلہ کرنے میں ناکام نظر آتا ہے۔ عمران خان ایک مجرم ہے جو اپنے جرم کو ایجنٹس کے سر پر تھوپ رہا ہے۔ 

الیکشن کمیشن کے سامنے احتجاج کا فیصلہ

سابق وزیرِ اعظم نواز شریف نے یہ بھی کہا کہ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) 19 جنوری کے روز الیکشن کمیشن آف پاکستان کے دفتر کے سامنے احتجاج کا فیصلہ کرچکی ہے۔ انہوں نے عوام سے اپیل کی کہ پاکستان کو ناانصافی سے نجات دلانے کیلئے احتجاج میں بڑھ چڑھ کر شریک ہوں۔

نواز شریف نے کہا کہ کہ قوم کو بددیانتی، خیانت، فراڈ اور کرپشن کے اقدام کو تحفظ دینے کے خلاف بھرپور احتجاج کرنا ہوگا۔ احتجاج ان کے بھی خلاف ہے جو نااہل اور بددیانت شخص (عمران خان) کو ملک پر مسلط کرچکے ہیں اور پھر اس کے بعد چوری و بددیانتی کو چھپانا بھی اپنا فرضِ منصبی سمجھتے ہیں۔ 

غیر ملکی فنڈنگ کیس کیا ہے؟

سن 2014ء میں پی ٹی آئی کے منحرف رکن اکبر ایس بابر نے پی ٹی آئی کی اندرونی مالی بے ضابطگیوں کے خلاف ای سی پی میں درخواست دائر کرتے ہوئے الزام لگایا کہ پی ٹی آئی ممنوعہ ذرائع سے غیر ملکی فنڈز حاصل کرتی ہے۔

اکبر ایس بابر کے مطابق پاکستان تحریکِ انصاف مبینہ طور پر 2 آف شور کمپنیز کے ذریعے لاکھوں ملین ڈالرز ہنڈی کے ذریعے پارٹی بینک اکاؤنٹس میں منتقل کرچکی ہے جس کے خلاف قانونی کارروائی ہونی چاہئے۔

مذکورہ درخواست میں اکبر ایس بابر نے یہ الزام بھی لگایا تھا کہ پی ٹی آئی کے جو اکاؤنٹس بیرونِ ممالک سے فنڈز اکٹھے کر رہے تھے، ان سے متعلق بینک اکاؤنٹس بھی الیکشن کمیشن سے خفیہ رکھے گئے۔

کیس کی مختصر تاریخ 

مختصراً اتنا بیان کرنا یہاں ضروری نظر آتا ہے کہ 14 نومبر 2014ء کے روز اکبر ایس بابر کی درخواست الیکشن کمیشن آف پاکستان میں جمع ہوئی جس کے تحت فارن فنڈنگ کیس قائم کیا گیا۔

پی ٹی آئی نے سیاسی جماعتوں کے فنڈز کی چھان بین پر الیکشن کمیشن کے دائرہ اختیار کو چیلنج کیا جس پر الیکشن کمیشن نے یہ اعتراض مسترد کردیا۔ 8 اکتوبر 2015ء کو الیکشن کمیشن نے واضح کیا کہ کمیشن کو ایسے تمام تر اختیارات بخوبی حاصل ہیں جن کے تحت کسی بھی سیاسی پارٹی کے فنڈز پر تفتیش کی جاسکے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ میں 26 نومبر 2015ء کے روز پی ٹی آئی نے اپنے اعتراضات کی درخواست جمع کرائی جس میں یہ اعتراض بھی کیا گیا تھا کہ اکبر ایس بابر مدعی نہیں بن سکتے۔ ڈیڑھ سال بعد ہائیکورٹ نے پی ٹی آئی کی درخواست 17 فروری 2017ء کو مسترد کردی۔

آگے چل کر الیکشن کمیشن نے بینک اکاؤنٹس کی پڑتال کیلئے ڈی جی لاء ونگ اور آڈیٹر جنرل الیکشن کمیشن کے افسران کی ایک کمیٹی بنادی۔ پی ٹی آئی نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں اس کمیٹی کے خلاف بھی اعتراضات پر مبنی درخواست دائر کردی۔ 

قانونی رائے 

اہلِ سیاست کیلئے پولیٹیکل پارٹیز آرڈر 2002ء کی دفعہ 13 کے تحت کسی بھی مالی سال کے اختتام کے 60 روز کے اندر اندر سیاسی پارٹیاں الیکشن کمیشن میں بینک اکاؤنٹس کی آڈٹ رپورٹ جمع کرانے کی پابند ہوتی ہیں۔

مذکورہ آڈٹ رپورٹ میں پارٹی کی سالانہ آمدنی، اخراجات، فنڈز کے ذرائع، اثاثہ جات اور واجبات کی تمام تر تفصیلات کو شامل کرنا ضروری ہوتا ہے۔ یہاں پارٹیاں ایک دستاویز پر دستخط کرنے کی پابند ہوتی ہیں جس میں ان سے یہ اقرار لیا جاتا ہے کہ مالی تفصیلات مکمل طور پر درست ہیں اور فنڈز ممنوعہ ذرائع سے حاصل نہیں کیے گئے۔

اسی پولیٹیکل پارٹیز آرڈر 2002ء کی شق 15 کے تحت حکومت کو اختیار دیا گیا ہے کہ کسی بھی سیاسی جماعت کو غیر ملکی فنڈز کے تحت قائم ہونے کے جرم میں کسی بھی وقت تحلیل کردے۔ وفاقی حکومت کے ڈیکلریشن کے 15 روز بعد یہ معاملہ سپریم کورٹ میں پہنچتا ہے اور اگر سپریم کورٹ بھی اس کی حمایت کردے تو پارٹی تحلیل ہوسکتی ہے۔

پارٹی تحلیل ہونے کی صورت میں تمام اراکینِ قومی و صوبائی اسمبلی، وفاقی اور صوبائی وزراء جو اس سیاسی جماعت سے تعلق رکھتے ہوں، ان کی اسمبلی رکنیت منسوخ ہوجاتی ہے ، گویا اگر پی ٹی آئی پر فارن فنڈنگ کیس ثابت ہوجائے تو وفاقی حکومت ختم کی جاسکتی ہے۔ 

تازہ ترین صورتحال 

حیرت انگیز بات یہ ہے کہ فارن فنڈنگ کیس صرف پی ٹی آئی کے خلاف نہیں ہے۔ 19 جنوری 2021ء کے روز اپوزیشن جو احتجاج کا اعلان کرچکی ہے اس میں اپوزیشن کا مطالبہ ہے کہ الیکشن کمیشن پی ٹی آئی کے خلاف فارن فنڈنگ کیس کا فیصلہ جلد از جلد کرے۔

اگرچہ حکومت یہ فیصلہ کرچکی ہے کہ اپوزیشن کے احتجاج میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی جائے گی، تاہم حکومت نے خود بھی الیکشن کمیشن کو درخواست دی ہے کہ پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے خلاف فارن فنڈنگ کیس کی سماعت روزانہ کی بنیادوں پر ہونی چاہئے۔

پارلیمانی سیکریٹری پی ٹی آئی فرخ حبیب کے مطابق پی ٹی آئی نے سن 2017ء میں ہی مسلم لیگ (ن) اور پی پی پی کی فارن فنڈنگ کے خلاف پٹیشن دائر کی تھی۔ اسکروٹنی کمیٹی کے درجنوں اجلاس ہوئے لیکن کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوسکا۔ 

اپوزیشن کے احتجاج کے اعلان کے بعد الیکشن کمیشن نے 18 جنوری کے روز پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کو فارن فنڈنگ کیس میں جواب کیلئے طلب کیا ہے۔ الیکشن کمیشن کی اسکروٹنی کمیٹی کا جو اجلاس 13 جنوری کو ہوا تھا اس میں پی ٹی آئی تسلیم کرچکی ہے کہ پی ٹی آئی امریکا میں 2 ذرائع کی طرف سے منتقل کیے گئے فنڈز کو وصول کرتی رہی ہے۔

مندرجہ بالا تمام تر صورتحال کے تناظر میں پی ٹی آئی، مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی تینوں فارن فنڈنگ کیس کے ہاتھوں مشکلات کا شکار ہیں۔ آنے والے کچھ ہی دنوں میں اس حوالے سے مزید انکشافات کی توقع کی جارہی ہے۔ 

Related Posts