پیغمبر اسلام ﷺنے معاشرے میں پھیلے جہالت کے اندھیروں کو کیسے دور کیا؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

عید میلاد النبی کی خوشیاں اور محسنِ انسانیت ﷺ کا اخلاق و کردار
عید میلاد النبی کی خوشیاں اور محسنِ انسانیت ﷺ کا اخلاق و کردار

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

پاکستان سمیت دُنیا بھر میں مسلمان ہر سال 12 ربیع الاوّل کے روز عید میلاد النبی ﷺ مناتے ہیں جس کا مقصد محسنِ انسانیت ﷺ کے اخلاق و کردار کو اجاگر کرنا ہے۔

پاکستان بھر میں آج سبز پرچموں کی بہار ہے، نعتِ رسولِ مقبول ﷺ کی بابرکت محافل منعقد ہورہی ہیں، مسلمان اللہ تعالیٰ کے آخری نبی ﷺ سے والہانہ محبت و عقیدت کا اظہار کر رہے ہیں۔

آئیے 12 ربیع الاوّل کے پر مسرت موقعے پر نبئ آخر الزمان ﷺ کی زندگی کے چیدہ چیدہ پہلوؤں کا جائزہ لیتے ہیں اور یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ حضورﷺ نے دورِ جاہلیت کے بد ترین معاشرے کو رہتی دُنیا تک کیلئے قابلِ تقلید مثال کیسے بنادیا؟

رحمۃ اللعالمین ﷺ کی آمد سے قبل معاشرے کی حالت

رسولِ اکرم ﷺ کی آمد سے قبل عرب معاشرہ بد ترین معاشرتی و اخلاقی بیماریوں اور جرائم کا شکار تھا جن میں جھوٹ، غیبت، چوری، دھوکا دہی، زنا اور قتل و غارت جیسے بد ترین جرائم شامل ہیں۔

جس کی لاٹھی اس کی بھینس سب سے بڑا قانون تھا، طاقتور کمزور کا استحصال کرتا تھا اور کمزورلوگ پسماندہ ترین غلامی کی زندگی گزارنے پر مجبور تھے۔ مرد خواتین کو دبا کر رکھنا قابلِ فخر سمجھتے تھے۔

عرب معاشرے کی بد ترین روایت بیٹیوں کو زندہ درگور کردینا تھا، بیٹی کی پیدائش پر باپ ہتک محسوس کرتا اور جلد سے جلد اسے قتل کرکے خود کو عزت دار کہلوانے کیلئے تیار ہوجاتا۔

محسنِ انسانیت ﷺ کی پیدائش اور مکہ کا مشکل دور

مکہ میں رسول اکرم ﷺ نے پیدائش اور بچپن سے لے کر جوانی تک  اپنے اخلاق و کردار کی ایک زبردست مثال قائم کی جو عرب معاشرے سمیت آج تک انسانی تاریخ میں دستیاب نہیں۔

انسان فطری طور پر نیکی کو پسند کرتا ہے چاہے برائی اس کی عادت ہی کیوں نہ بن چکی ہو، رسولِ اکرم ﷺ ہمیشہ سچ بولتے تھے، رحمدلی، انصاف اور بہادری آپ ﷺ کے نمایاں اوصاف تھے۔

جب کوئی شخص آپ ﷺ کے پاس امانت رکھوا کر جاتا تو اسے وہ امانت جوں کی توں واپس مل جاتی تھی جبکہ عرب معاشرے میں امانت میں خیانت ایک عام سی بات بن چکی تھی جس کیلئے لوگ ذہنی طور پر تیار رہتے تھے۔

یہ کوئی ایسی بات نہیں تھی جسے نظر انداز کیا جاتا، کیونکہ آپ ﷺ نہ صرف اپنی بات کے پکے تھے بلکہ لین دین اور کاروباری اصولوں کی پاسداری میں بھی آپ ﷺ کا کوئی ثانی نہیں تھا۔

عرب کے بد ترین معاشرے میں بے مثال اخلاق و سیرت کے مالک ہمارے پیارے نبی ﷺ کو لوگوں نے صادق اور امین کہنا شروع کردیا، اور یہی وہ بنیادی نکتہ تھا جس پر آپ ﷺ نے اللہ تعالیٰ کے احکامات کے تحت اپنی نبوت کی بنیاد رکھی۔ 

غارِ حراء میں عبادت اور دورِ نبوت

آپ ﷺ کا معمول تھا کہ عبادت کیلئے حراء کے غار میں جاتے اور اللہ تعالیٰ کی عبادت میں مشغول رہتے، یہیں آپ ﷺ کی ملاقات اللہ کے برگزیدہ فرشتے حضرت جبرئیل علیہ السلام سے ہوئی۔ 

غارِ حراء سے ہی قرآنِ پاک کے نزول کا سلسلہ شروع ہوا اور آگے چل کر اللہ تعالیٰ کے حکم کے تحت آپ ﷺ نے اپنی نبوت کا اعلان فرمایا۔

سب سے پہلے آپ ﷺ نے کفار سے پوچھا کہ اگر میں کہوں پہاڑ کے عقب سے ایک لشکر تم پر چڑھائی کیلئے آ رہا ہے تو کیا تم میری بات کا یقین کر لو گے؟

کفارِ مکہ نے یہ اعتراف تو کیا کہ نبی اکرم ﷺ کی ذاتِ مقدس سے بڑھ کر عرب میں کوئی شخص قابلِ اعتبار نہیں تھا جس کی صداقت کا یقین کیا جاتا لیکن انہوں نے بتوں کی پرستش چھوڑنے سے یہ کہہ کر انکار کیا کہ ہم اپنے آباواجداد کا طریقہ نہیں چھوڑیں گے۔ 

مظالم، ہجرتِ مدینہ اور نعتِ رسول ﷺ

مکہ کے کافروں نے جن میں ابوجہل سب سے آگے تھا، حضورِ اکرم ﷺ اور سابقون الاولون یعنی ابتدائی دور میں اسلام قبول کرنے والے صحابہ پر بہت مظالم ڈھائے۔

کافروں نے حضور ﷺ کیلئے غلط الفاظ استعمال کرنے سے لے کر آپ ﷺ کی تحقیر اور جسمانی اذیتیں دینے تک بے شمار مظالم کیے اور یہ مظالم صرف حضور ﷺ کی ذات تک محدود نہیں تھے۔

مسلمانوں کو ہجرت کیلئے مجبور ہونا پڑا اور آپ ﷺ کفار کی امانتیں حضرت علی کرم اللہ وجہ کے حوالے کرکے مدینہ آگئے، جہاں آپ کا استقبال کرنے والی بچیوں نے دف بجا کر طلع البدر علینا کی صدائیں بلند کیں۔

یہ نعت کی وہ صورت ہے جس سے مسلمانوں کے ہاں نظمیہ صورت میں حضور ﷺ کی تعریف کا سلسلہ شروع ہوا جو آج تک جاری و ساری ہے۔ 

اسلام کے ناقابلِ تردید بنیادی اصول 

اگر ہم رسولِ اکرم ﷺ کے حیاتِ مبارکہ اور صحابہ کرام کی سیرت پر نظر ڈالیں تو پتہ چلتا ہے کہ اسلام کی بنیاد صرف اور صرف قرآنی آیات اور حضور ﷺ کی حیاتِ مبارکہ یعنی سنت اور حدیث پر رکھی گئی ہے۔

غور کیجئے تو قرآنِ پاک کی حفاظت کا ذمہ اللہ تعالیٰ نے خود لیا اور قیامت تک اس کے الفاظ تو کیا، زیر، زبر اور پیش میں بھی کوئی تحریف یا تبدیلی نہیں کی جاسکتی کیونکہ دورِ نبوت سے لے کر آج تک کی 14 سو برس سے زائد تاریخ اس کی گواہ ہے۔

دوسری جانب حدیث سے مراد حضور ﷺ کے افعال، اعمال اور سیرتِ مبارکہ ہے۔ حضور ﷺ جو کرتے یا کسی بات پر جو ردِ عمل دیتے، کچھ فرماتے یا خاموش رہتے، صحابہ کرام اسے لکھ لیا کرتے تھے۔

حدیث کی حفاظت کیلئے دورِ صحابہ کے بعد سب سے زیادہ کام تابعین نے کیا۔ انہوں نے علم الرجال کے نام سے ایسی تاریخ لکھی جس کی مثال دنیا کے کسی اور دین یا مذہب میں موجود نہیں اور یہی علم الرجال حدیث کیلئے سندِ تصدیق کا درجہ رکھتا ہے۔

احکاماتِ قرآن و حدیث اور ہماری زندگیاں

دُنیا بھر میں حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کے چاہنے والے آج ان کا یومِ ولادت مذہبی جوش و جذبے اور ہم آہنگی کے ساتھ منا رہے ہیں۔

یہی وہ موقع ہے جب ہم یہ سوچیں کہ آج ہماری زندگیاں حضور ﷺ کی سیرتِ مبارکہ، قرآنی احکامات یا صحابہ کرام کے نقشِ قدم پر کس حد تک عمل پیرا ہیں؟

سادگی حضورِ اکرم ﷺ کی پاک سیرت کا ایک اہم جزو تھی۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے جب گھر کی دیوار پر سجاوٹ کیلئے ایک کپڑا رکھا تو حضور ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے ہمیں مال اس لیے نہیں دیا کہ اینٹ اور پتھروں کو کپڑے پہنائے جائیں۔

اخلاق میں حضور ﷺ سے اعلیٰ اوصاف کی حامل شخصیت دورِانسانیت کے آغاز سے لے کر آج تک موجود نہیں، آپ ﷺ نے فرمایا: تم میں سے سب سے بہتر وہ ہے جو اپنے گھر والوں کیلئے بہتر ہو، اور میں اپنے گھر والوں کیلئے تم سب سے بہتر ہوں۔

کردار کی سلامتی اور عزت و ناموس کی حفاظت اسلامی شریعت کا اہم جزو ہے۔ حضورِ اکرم ﷺ نے فرمایا: حیاء نصف ایمان ہے۔ فرمایا دل میں ایمان اور حیا ساتھ ساتھ رہتے ہیں، ایک چلا جائے تو دوسرا بھی رخصت ہوجاتا ہے۔

بہادری میں حضور ﷺ کا کوئی ثانی نہیں تھا۔ آپ ﷺ نے غزوۂ بدر سے لے کر فتحِ مکہ تک بے مثال جرات اور شجاعت کا مظاہرہ کیا۔ ایک منصف کے طورپر آپ ﷺ کی زندگی بے مثال رہی۔

خواتین کو اسلام نے مردوں کے برابر حقوق دئیے، اگر ایک طرف شوہر کا درجہ بیوی سے زیادہ ہے تو دوسری جانب ماں کا درجہ باپ سے 3 گنا زیادہ ہے۔ ایک شخص نے حضور ﷺ سے پوچھا یا رسول اللہ ﷺ میرے حسنِ سلوک کا سب سے زیادہ حقدار کون ہے؟ فرمایا تمہاری ماں، اس نے ایک بار پھر پوچھا تو یہی فرمایا اور مجموعی طور پر 3 بار یہی جواب ملا، صرف چوتھی بار پوچھنے پر فرمایا: تمہارا باپ۔

انصاف کے حوالے سے ایک اہم واقعہ بھی ہمارے سامنے ہے۔ حضور ﷺ نے چوری کے جرم پر ایک خاتون کا ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا اور جب سزا کے خلاف سفارش کی گئی تو فرمایا: اگر اس کی جگہ میری بیٹی فاطمہ رضی اللہ عنہا نے بھی چوری کی ہوتی تو میں اس کا بھی ہاتھ کاٹنے کا حکم دیتا۔

اللہ کے آخری نبی کی سب سے اہم احادیث میں سے ایک یہ ہے کہ تم سے پہلے کی قومیں اس لیے تباہ ہوئیں کیونکہ اگر کمزور کوئی جرم کرتے تو انہیں سزا دی جاتی اور اگر کوئی طاقتور جرم کرتا تو اسے چھوڑ دیاجاتا تھا۔

ہم اگر اپنی زندگیوں پر نگاہ ڈالیں تو سادگی، اخلاق و کردار، شجاعت و بہادری اور عدل و انصاف میں سے ایسا کون سا اصول ہے جس پر ہم پوری طرح عمل کر رہے ہیں؟

عید میلاد النبی ﷺ سے بہتر کون سا موقع ہوگا جس پر یہ سوچا جاسکے کہ آج ہم رسولِ اکرم ﷺ کی سیرت کی روشنی میں اپنی زندگیوں کو بہتر بنانے کیلئے کیا کرسکتے ہیں؟ غور ضرور کیجئے گا۔

Related Posts