حضرت ایوب علیہ السلام کی دُعا

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

حضرت ایوب علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے پیغمبر تھے اُن کو اللہ  تعالیٰ نے سخت مصیبت میں مبتلا کیا لیکن ایسے وقت میں بھی وہ نااُمیدی کے بجائے اللہ تعالیٰ سے دعا کیا کرتے تھے، جو کہ اُن کیلئے مددگار ثابت ہوئی تھی۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ

اور جب ایوب نے اپنے رب کو پکارا کہ مجھے روگ لگ گیا ہے، حالانکہ تو سب رحم کرنے والوں سے زیادہ رحم کرنے والا ہے، پھر ہم نے اُس کی دعا قبول کی اور جو اُسے تکلیف تھی ہم نے دور کردی اور اُسے اُس کے گھر والے دیےاور اتنا ہی اُن کے ساتھ اپنی رحمت سے اور بھی دیا اورعبادت کرنے والوں کیلئے نصیحت ہے۔ (سورۃ الانبیاء آیات 83-84)۔

حضرت ایوب علیہ اسلام کے اللہ تعالیٰ نے بہت زیادہ امتحانات لیے ہیں، وہ بہت زیادہ خوشحال انسان تھے، اللہ تعالیٰ نے اُن کو متعدد آزمائشوں سے آزمایا۔ حضرت ایوب علیہ اسلام کے تمام مویشی ختم ہوگئے، اُن کے خاندان نے انھیں تنہا چھوڑدیا ، یہی نہیں کہ بلکہ اللہ تعالیٰ نے اُن کو ایسی خطرناک بیماری دی تھی کہ لوگوں نے اُن کو اکیلا چھوڑدیا تھا ، اُن کے جسم پر پھوڑے نکل آئے تھے ایسے میں سب نے اُن کو تنہا چھوڑدیا تھا۔

کیونکہ یہی دنیا کا دستور ہے کہ مشکل وقت میں لوگوں کی اکثریت انسان کو تنہا چھوڑ دیتی ہے، ایسے میں اُس انسان کیلئے بہت زیادہ مشکل ہوتا ہے اپنے حواس پر قابو رکھنا ، کیونکہ تنہائی کسی بھی انسان کو مایوسی میں مبتلا کردیتی ہے ۔ وہ محسوس کرتا ہے کہ معاشرے میں وہ اکیلا رہ گیا ہے۔

لیکن ایسے وقت میں بھی حضرت ایوب علیہ اسلام نے اللہ کا ذکر نہیں چھوڑا، اللہ تعالی نے سورۃالانبیاء کی آیت نمبر 83 اور 84 میں بتایا ہے کہ میں نے ایو ب کو بہت آزمایا ، وہ بسترِ مرگ پر تھے جن کے بارے میں لوگوں کاخیال تھا کہ وہ مفلوج ہیں لیکن اُن کی زبان ایسے میں بھی اللہ کا ذکر کرتی تھی، وہ ایسی حالت میں بھی اللہ تعالیٰ کو پکارتے تھے۔

حضرت ایوب علیہ اسلام اللہ تعالیٰ سے اپنی مصیبتوں کی شکایت نہیں کرتے تھے بلکہ وہ اُس سے پناہ مانگتے تھے، وہ کہتے تھے کہ یہ مشکلات مجھ پر اثر کررہی ہیں، جس سے ہمیں یہ درس ملتا ہے کہ ہمیں کبھی اللہ تعالیٰ کی ذات سے مایوس نہیں ہونا چاہیے اور نہ ہی اُس سے شکایت کرنی چاہیے بلکہ اللہ سے دُعامانگتے رہنا چاہیے۔

مزید برآں، ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ روحانی بہبود کے مقابلے میں جسمانی تندرستی، مالی بہبود، اور سماجی بہبود ثانوی حیثیت رکھتی ہے۔ہمارے لئے مسائل اُس وقت کھڑے ہوسکتے ہیں جب بیماری یا کوئی بھی مصیبت ہمیں اللہ تعالیٰ سے دور کردے، وہ ہمارے لئے زیادہ تباہ کُن ہوگا۔ 

حضرت ایوب علیہ اسلام کی دعا کا ایک اور قابل ذکر پہلو یہ ہے کہ وہ (ع) اللہ تعالیٰ سے اپنی مشکلات سے نجات نہیں مانگ رہے بلکہ اس بات کو تسلیم کررہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ بہت زیادہ رحم کرنے والا ہے۔ وہ اس بات کا اعتراف کر رہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ سب سے زیادہ پیار کرنے والا اور خیال رکھنے والا ہے اور حضرت ایوب علیہ اسلام اللہ تعالیٰ کی محبت اور اس کی دیکھ بھال کی قدر کرتے ہیں، جس کا کوئی بھی انسان مقابلہ نہیں کرسکتا۔

واضح رہے کہ اللہ تعالیٰ سے سوائے رحم کی طلب کہ حضرت ایوب علیہ اسلام نے کچھ نہیں مانگا لیکن پھر بھی اللہ تعالیٰ نے انھیں سب کچھ واپس دے دیا، اُن کو تندرستی دی، اُن کا خاندان دیا اور اُن کی تنہائی کو دور کردیا تاکہ وہ اللہ تعالیٰ کے پیغام کی تبلیغ کرسکیں۔

مزید برآں اس دُعا سے بہت اہم سبق ملتا ہے، یہ دُعا ہمیں یاد دلاتی ہے کہ اس دنیا میں اللہ تعالیٰ سے زیادہ کوئی بھی ہماری پرواہ نہیں کرتا، ہمیں ہمیشہ یہی سوچ کر اللہ تعالیٰ سے دُعا مانگنی چاہیے کہ توہی اُن مشکلات کو دور کرسکتا ہے کہ جن کا سامنا میں اس وقت کررہا ہوں۔

یہاں پر ایک بات غور طلب ہے کہ جب بھی اللہ پاک نے قرآن مجید میں کسی انبیاء کی دُعا ذکر کیا ہے تو وہ اُس سے مسلمانوں کو اہم سبق دے رہا ہے کہ ہم بھی مشکل حالات میں ان دُعاؤں کو اپنے معمول کا حصہ بنائیں

حضرت ایوب علیہ اسلام کی دُعا ہمارے لئے بہت زیادہ اہم ہے کیونکہ یہ ہمارے دلوں کو سخت سے سخت حالات میں منفی ہونے سے روکتی ہے، جب بھی ہم کسی مشکل سے گزریں تو ہمیں یہ سوچنا چاہیے کہ حالات جتنے بھی بدتر ہوجائیں لیکن میرا اللہ میرے ساتھ ہے اور وہ یقینا میرے لئے بہترین سوچ رہا ہوگا۔

Related Posts