جہیز۔ایک بیٹی کا بوجھ

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

ہمارے معاشرے میں جہیز کا تصور عام ہے اور جہیز کی وجہ سےبعض والدین بیٹیوں کو ایک بوجھ سمجھتے ہیں، جنوبی ایشیاء میں جہیز کو شادی کا لازمی جز سمجھا جاتا ہے اور والدین بیٹیوں کی پیدائش سے ہی ان کے جہیز کی فکر میں پڑ جاتے ہیں کیونکہ ہمارے معاشرے میں جہیز کو کامیاب شادی کی ضمانت سمجھا جاتا ہے اور جہیز نہ لانے یا کم لانے والی دلہن کو انتہائی ہتک آمیز رویوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور بسا اوقات دلہنیں اپنے ہاتھوں کی مہندی اترنے سے پہلے ہی طعن و تشنیع سے پریشان ہوکر اپنی زندگی کا خاتمہ بھی کر لیتی ہیں۔

والدین اپنی نازوں سے پلی بیٹی دوسروں کو سونپتے وقت یہ گمان کرتے ہیں کہ ہماری بیٹی کو آگے بھی بیٹی کا درجہ ملے گا اور زندگی عزت واطمینان سے بسر ہوگی لیکن ایسا ہوتا نہیں ہے۔ رشتہ طے پانے کے بعد فریقِ ثانی یہ توقع کرتے ہیں کہ لڑکی کو بھاری جہیز کے ساتھ رخصت کیا جائیگا اور المیہ یہ ہے کہ لڑکی کے خاندان کی مالی حیثیت دیکھے بغیر سامان کی ایک طویل فہرست دیدی جاتی ہے جس میں فرنیچر ، گھریلو استعمال کا سامان، کاریں ، موٹرسائیکل، کراکری ، کپڑے، سونا اور دیگر اشیاء کا تقاضہ کیا جاتا ہے۔

غریب اور متوسط طبقے میں آج بھی ہزاروں بیٹیوں کے سروں میں جہیز نہ ہونے کی وجہ سے چاندی اتر چکی ہے لیکن وہ بابل کے سینے کا بوجھ بنی ہوئی ہیں کیونکہ والدین کو مجبور کیا جاتا ہے کہ جہیز میں فلاں فلاں اشیاء لازمی درکار ہیں بصورت دیگر رشتے پایہ تکمیل کو نہیں پہنچتے اور اکثر رشتوں کو پروان چڑھانے کیلئے والدین اپنی زندگی کی جمع پونجی لگانے کے ساتھ ساتھ بھاری قرض بھی اٹھاتے ہیں تاکہ بیٹی سکھی رہے لیکن اس کے باوجود کم جہیز لانے والی دلہنوں کو مختلف طریقوں سے اذیت کا نشانہ بنایا جاتا ہے، جسمانی تشدد ، بدسلوکی اور نفسیاتی دباؤ ایک لڑکی کو زندہ درگور کردیتا ہے۔

جہیز پاکستان کی دیہی اور شہری زندگی کی وہ رسم ہے جو عمومی ناپسندیدگی کے باوجود کسی نہ کسی شکل میں جاری ہے۔یہ المیہ ہمارے معاشرے کا وہ بدنما داغ بنتا جا رہا ہےجس کا کوئی آسان حل نہیں ہے،کتنی لڑکیاں ایسی ہیں جوجہیز پورا ہونے کے انتظار میں اپنے والدین کے گھر بیٹھی رہتی ہیںاور ہم ایک ایسے معاشرے میں جی رہے ہیں جہاں آئے دن غیرت کے نام پر کبھی ماں، بہن اور بیٹیوں کو قتل کیا جاتا ہے اوربعض اوقات تو یہاں تک بھی دیکھا گیا ہے کہ جہیز کی آگ شادی کے بعد بھی بجھنے کا نام نہیں لیتی۔

لڑکے والے شادی کے بعد بھی طرح طرح کے مطالبے کرتے ہیں اور اگر ان کو پورا نہ کیا جائے تو لڑکی کو بار بار لعن طعن اور آزمائشوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ یہاں تک کہ من مرضی کے مطابق جہیز نہ دینے کی صورت میں لڑکی کو اپنی زندگی سے ہاتھ دھونا پڑ جاتا ہے۔ دیہات میں تو اکثر و بیشتر دیکھا گیا ہے کہ لڑکی کو زندہ جلا دیا جاتا ہے۔

24 ستمبر 2015 کو 26 سالہ انیبہ کو اس کے شوہر نے محض اس لئے زہر دیدیا کہ وہ اسکی مرضی وپسند کا جہیز نہیں لائی ۔27 ستمبر کو سیالکوٹ میں شادی کے 15 سال بعد پانچ بچوں کی ماں کو سسرالیوں نے آگ لگاکر مار دیا۔

جہیز کی کمی کی وجہ سے ہونیوالی اموات اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ایک تلخ حقیقت ہے۔ 2016ء میں سوشل سائنس ریسرچ نیٹ ورک پرشائع ہونے والی شالو پریا تیواری کی تحقیق کے مطابق پاکستان میں ہر سال دو ہزار بیٹیاں جہیز کی وجہ سے موت کی دہلیز پارکرجاتی ہیں اور یہ شرح اموات ایشیاء کے دیگر ممالک کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ ہے تاہم یہ وہ اعداد وشمار ہیں جو سامنے آئے لیکن دیہی و پسماندہ علاقوں میں اس سے زیادہ واقعات رونما ہوتے ہیں جو رجسٹرڈ نہ ہونے کی وجہ سے منظر عام پر نہیں آتے۔

اس وقت ملک میں جہیز کو جرم قرار دینے کا کوئی قانون موجود نہیں ہےتاہم 18 ویں ترمیم کے بعد جہیز کا مطالبہ کرنے کے عمل کو روکنے کے لئے صوبوں کی طرف سے متعدد کوششیں کی گئیں۔ جہیز کا مطالبہ کرنے والوں کیلئے ایک سال قید کابل 2017 میں سندھ اسمبلی کے سامنے پیش کیا گیا تاہم اس پر عمل درآمد نہ ہوسکا۔

اسی طرح پنجاب میں میرج فنکشنز ایکٹ جہیز کی نمائش پر پابندی لگاتا ہے لیکن جہیز کی ممانعت کا کوئی قانون نہیں ہے۔ایک تاریخی اقدام کے تحت خیبر پختونخوا میرج فنکشنز ایکٹ 2018 نافذ العمل ہونے کے بعد جہیز کے مطالبے پرصوبے میں قانون کے ذریعہ 3لاکھ روپے جرمانہ یا دو ماہ قید کی سزا تجویز کی گئی ہے لیکن اس قانون پر عمل درآمد ابھی باقی ہے تاہم قانون کو جہیزکی برائی کو روکنے کیلئے اپنا راستہ بنانا چاہیے۔

گزشتہ دنوں پاکستان میں سوشل میڈیا پر ایک دلہن کی تصویر وائرل ہوئی جس میں وہ انتہائی خوبصورت لال لباس میں ملبوس جہیزسے لدے ایک چھکڑے کو بمشکل گھسیٹنے کی کوشش کر رہی ہے اور سجا سنورا دلہا بھی اسی چھکڑے پر سوار ہے۔

اس تصویر پر لکھا ہے ’جہیز سے انکار کریں۔‘یہ تصویر معروف پاکستانی ڈیزائنر علی ذیشان کی نئی برائیڈل کلیکشن ’نمائش‘ کا حصہ ہے جس کا مقصد نوجوان نسل میں جہیز کی صدیوں پرانی روایت کے خلاف آگاہی فراہم کرنا ہے۔ اس تصویر پر خاصا ردِعمل سامنے آیا ہے جس میں تقریباً ہر شخص ہی جہیز جیسی رسم کی مخالفت کرتا نظر آیا۔

پاکستان میں کئی مذہبی رہنما ایسے ہیں جو جہیز کے رواج کے خلاف تبلیغ کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر جماعت اسلامی کے امیر سینیٹر سراج الحق نے جہیز کی روایت پر مکمل پابندی کا مطالبہ کرتے ہوئے اسے ایک ’بدعنوان عمل‘ قرار دیا ہے، ایسے لوگوں کو جہیز کے خلاف مہم کو نچلی سطح تک پہنچانے اور جہیز کے مطالبات کے جھوٹے خیالات کو ختم کرنے کیلئے کردار ادا کرنا چاہیے۔

والدین کو بھی جہیز کے کلچر کو قابل مذمت قرار دینے کے لئے بیٹی کے کردار کو ایک نعمت سمجھنا چاہئے کیونکہ بیٹی کوئی بوجھ نہیں ہوتی۔ اگر یہ سوچ اپنائی جائے گی ، تب ہی والدین اس مکروہ رواج کے سامنے جھکنے سے انکار کردیں گے۔

Related Posts