کراچی کی محرومی: سیاسی کشیدگی، پیپلز پارٹی کی ضد کے نتائج

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

Deprivation of Karachi and political tussle

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

کراچی پاکستان کا ہی نہیں بلکہ دنیا کے بڑے شہروں میں سے ایک ہے۔ اس کی آبادی دنیا کے کئی چھوٹے ممالک سے بھی زیادہ ہے اور کراچی کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ یہ شہرپاکستان کے طول و عرض میں بسنے والے محنت کشن طبقے کو روزگار فراہم کرتا ہے۔

روزگار کی فراہمی
کراچی نے ہمیشہ اپنے بڑے ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے ہر طبقے سے تعلق رکھنے والے شہریوں کو اپنے اندر سمانے کی اجازت دی۔ ملکی معیشت کو سہارا دینے میں ہمیشہ اول دستے کا کردار ادا کیا اور ملک کی ترقی میں اہم حصہ ہونے کے باوجود کراچی گزشتہ کئی دہائیوں سے محرومیوں کا شکار ہے۔

عوام کی محرومیاں
کراچی کے نوجوان علم وحکمت سے آراستہ ہونے کے باوجود نوکریوں سے محروم ہیں اور شہریوں کو خطیر ٹیکس دینے کے بعد بھی بنیادی سہولیات کی عدم دستیابی کا سامنا ہے۔اہل علم اداروں ، اہل فن کارخانوں ، مزدور روزگار ، بچے تعلیم ،سیروتفریح، عوام سڑکوں،مریض علاج معالجے غرض طرح کی سہولیات سے محروم ہیں۔

عرصہ دراز سے پاکستان پیپلزپارٹی کے سندھ میں اقتدار پر براجمان ہونے کے باوجود کراچی محرومیوں کا مرکز بن چکا ہے۔ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ پی پی قیادت نے کبھی مخلصانہ کوششیں ہی نہیں کیں کہ شہریوں کی مشکلات کا ازالہ کیا جاسکے بلکہ شہریوں کے محرومیوں اور مشکلات میں اضافہ کیا جارہا ہے۔

بلدیاتی ایکٹ
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان پیپلزپارٹی کراچی کے شہریوں کوووٹ نہ دینے کی سزاء دے رہی ہے، حکومت کی جانب سے کراچی کی ترقی کے نام پر اربوں روپے کے فنڈز کی منظوری کے باوجود شہر کے باسی اپنے جائز مسائل کے حل کیلئے پریشان ہیں۔

سندھ حکومت کی جانب سے نئے بلدیاتی ایکٹ کے ذریعے ایک بار پھر ایسامحسوس ہوتا ہے کہ شائد کراچی پر مکمل کنٹرول حاصل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کیونکہ ماضی میں کئے گئے فیصلوں سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شائد سندھ حکومت کو کراچی سے کوئی سروکار نہیں ہے وہ تو صرف کراچی پر قبضے کے خواب دیکھ رہی ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ کراچی کے شہری پہلے ہی بہت سی مشکلات اور محرومیوں کا شکار ہیں اور ایک متنازع بل کے ذریعے کراچی کے اداروںکو کنٹرول کرنے کی کوشش شہریوں کیلئے پریشانی کا سبب بن چکی ہے۔

سیاسی کشیدگی
بلدیاتی ایکٹ کیخلاف وفاق میں حکمراں اور سندھ میں اپوزیشن جماعت تحریک انصاف، متحدہ قومی موومنٹ، پاک سرزین پارٹی، مسلم لیگ اور جماعت اسلامی سمیت تمام چھوٹی بڑی سیاسی پارٹیاں سراپاء احتجاج ہیں لیکن جماعت اسلامی کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمان تقریباً گزشتہ 3 ہفتوں سے سندھ اسمبلی کے باہر دھرنا دیئے ہوئے ہیں۔

جماعت اسلامی کا واضح مطالبہ ہے کہ یہ قانون واپس لیا جائے اور کراچی کی محرومیوں کو دور کیا جائے اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ کراچی کی تمام سیاسی پارٹیاں جماعت اسلامی کے مطالبے سے کسی نہ کسی حد تک متفق ضرور ہیں جس کی وجہ سے شہر کے تمام حلقے جماعت اسلامی کی حمایت میں کھڑے نظر آتے ہیں۔

سندھ حکومت کے بلدیاتی ایکٹ کیخلاف تمام جماعتیں یک زبان ہیں اور اب پاک سرزمین پارٹی بھی احتجاج کی حکمت عملی پرعمل پیرا نظر آتی ہے تاہم اس صورتحال میں پیپلزپارٹی کا غیر سنجیدہ رویہ سمجھ سے بالاتر ہے اور ایسا لگتا ہے کہ شائد پیپلزپارٹی اختیار عوام کو منتقل کرنے کیلئے تیار نہیں ہے اور صوبائی وزیرسعید غنی کے غیر ذمہ دارانہ بیانات صورتحال کو مزید پیچیدہ بنارہی ہے جس سے شہریوں کی تشویش میں اضافہ ہورہا ہے۔

پیپلزپارٹی کی ضد 
اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ کراچی کے عوام کے مفادات کو مد نظر رکھ کر مسئلے کا حل نکالا جائے کیونکہ اس وقت سندھ میں احتجاج کی ایک لہر اٹھنے کو ہے اور اگر جماعت اسلامی کے بعد پی ایس پی، ایم کیوایم اوردیگر جماعتیں بھی احتجاج کیلئے باہر نکلتی ہیں تو صورتحال مزید بگڑ جائیگی جس سے پیپلزپارٹی کی ساکھ کو ناقابل تلافی نقصان ہوگا۔

ان تمام معاملات سے قطع نظر کراچی اور اس کے شہریوں کو ان کا حق ملنا وقت کی ضرورت ہے۔ محرومیوں کا سلسلہ بند کرکے شہریوں کو ان کے جائزحقوق دیئے جائیں کیونکہ اگر پیپلزپارٹی نے اب بھی ہوش کے ناخن نہ لئے تو کراچی کے ساتھ ملک کو بھی نقصان ہوگا۔

Related Posts