سابق وزیرِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو سے منسوب جمہوریت کی تاریخ اور آج کا یومِ سیاہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

سابق وزیرِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو سے منسوب جمہوریت کی تاریخ اور آج کا یومِ سیاہ
سابق وزیرِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو سے منسوب جمہوریت کی تاریخ اور آج کا یومِ سیاہ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

وطنِ عزیز پاکستان کی سیاسی تاریخ بھی عجیب و غریب واقعات سے بھری پڑی ہے جن میں سے ایک اہم واقعہ سن 1977ء میں آج ہی کے روز رونما ہوا جس کی یاد میں پاکستان پیپلز پارٹی یومِ سیاہ منانے میں مصروف ہے۔

سابق وزیرِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو قائدِ عوام بھی کہا جاتا ہے جن کو اُس وقت کے آرمی چیف جنرل ضیاء الحق نے اقتدار سے ہٹادیا۔ آج اِس واقعے کو 43 سال گزر چکے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو اگر وزیرِ اعظم ہی رہتے اور ضیاء الحق انہیں نہ ہٹاتے تو کیا ہوتا؟ پیپلز پارٹی اور عوام الناس کے نزدیک ملکی تاریخ میں یہ واقعہ اتنا اہم کیوں ہے اور اس کے ملکی تاریخ پر کیا اثرات رونما ہوئے؟

ذوالفقار علی بھٹو اور وزارتِ عظمیٰ

پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو 2 سال تک ایوب خان کی حکومت میں وزیرِ تجارت رہے، اگلے دو سال یعنی 60ء سے 62ء تک وزیرِ اطلاعات و قومی تعمیر، اگلے 3 سال وزیرِ صنعت رہے۔

بعد ازاں ذوالفقار علی بھٹو کو 1963 سے 66ء تک وزیرِ خارجہ رہنے کا موقع ملا۔ 67ء میں پیپلز پارٹی بنائی۔ 70ء میں پیپلز پارٹی موجودہ پاکستان اور اُس دور کے مغربی پاکستان کے عام انتخابات میں کامیاب ہوئی۔

جنرل یحییٰ خان نے دسمبر 1971ء میں ذوالفقار علی بھٹو کو ملک کا صدر بنا دیا اور صدارت 1973ء تک برقرار رہی تاہم نئے آئین 73ء کے نفاذ کے بعد ذوالفقار علی بھٹو ملک کے وزیرِ اعظم بن گئے۔

وزارتِ عظمیٰ سے محرومی اور سزائے موت

سن 1977ء میں عام انتخابات میں دھاندلی کے الزامات لگائے گئے جن کے باعث پاکستان میں خانہ جنگی کی صورتحال پیدا ہو گئی۔ ملک کے آرمی چیف ضیاء الحق نے 5 جولائی 1977ء کو یعنی آج سے ٹھیک 43 برس قبل ذوالفقار علی بھٹو کو اقتدار سے ہٹا کر ملک میں مارشل لاء نافذ کردیا۔

بات یہیں ختم نہیں ہوئی بلکہ اگلے دو ماہ بعد یعنی ستمبر 1977ء میں نواب محمد احمد خان کے قتل کا الزام عائد کیا گیا اور ذوالفقار علی بھٹو کو گرفتار بھی کر لیا گیا جس کے بعد 18 مارچ 1978ء کے روز ہائی کورٹ نے سابق وزیرِ اعظم پاکستان کو پھانسی کی سزا سنا دی۔

جب فیصلے کے خلاف اپیل کی گئی تو سپریم کورٹ آف پاکستان بھی ہائی کورٹ کے فیصلے کو مسترد نہ کرسکی۔ 6 فروری 1979ء کو ملک کی اعلیٰ ترین عدالت نے ہائی کورٹ کے فیصلے کی توثیق کرتے ہوئے سزائے موت برقرار رکھی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ 4 اپریل 1979ء کو ملک کے مقبول ترین وزیرِ اعظم کو سزائے موت دے دی گئی۔ 

بھٹو کے مملکتِ خداداد پر احسانات 

یہ بات سمجھنا بے حد ضروری ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کوئی معمولی وزیرِ اعظم نہیں تھا جسے سزائے موت دینے سے اس کا نام پاکستان کی تاریخ سے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے مٹ جاتا بلکہ حقیقت یہ ہے کہ بھٹو آج بھی زندہ ہے۔

سب سے بڑا احسان جو ذوالفقار علی بھٹو نے مملکتِ خداداد پر کیا، وہ سن 1973ء کا آئین ہے جس کے بعد ملک ایک واضح قانون کے تحت چلنے لگا، ورنہ اِس سے قبل جس کی لاٹھی اُس کی بھینس یا جنگل کا قانون رائج تھا۔

دوسرا بڑا اور اہم ترین احسان جو ذوالفقار علی بھٹو نے ملک پر کیا وہ ایٹمی طاقت بننے کیلئے ابتدائی اقدامات تھے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے ابتدائی اقدامات بے حد فیصلہ کن اور واضح تھے جو ہماری قومی سلامتی پر منتج ہوئے۔

ذوالفقار علی بھٹو کشمیر کے مسئلے کو عالمی سطح پر اجاگر کرنے میں ہر دور کے وزرائے اعظم میں اہم مقام رکھتے ہیں۔ شملہ معاہدہ اور 5 فروری کو یومِ کشمیر منانا ذوالفقار علی بھٹو کے دور سے شروع ہوا۔

آج کون سا یومِ سیاہ ہے؟ 

غور کیا جائے تو ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف اقدامات کا آغاز 5 جولائی 1977ء سے ہوا جب ضیاء الحق نے انہیں اقتدار سے الگ کردیا اور جمہوریت کی جگہ آمریت نے لے لی، اس لیے 5 جولائی کی اہمیت سے انکار نہیں کیاجاسکتا۔

بعد ازاں 18 مارچ 1978ء کا دن بھی یومِ سیاہ قرار دیا جاسکتا ہے جب ہائی کورٹ نے ذوالفقار علی بھٹو کو موت کی سزا سنائی اور پھر وہ دن بھی جب سپریم کورٹ نے اِس کی توثیق کی۔یہ سب ایامِ سیاہ قرار دئیے جاسکتے ہیں۔

سوشل میڈیا پر کیا ہورہا ہے؟

عوام الناس آج کے اہم تاریخی موقعے پر اپنی اپنی رائے کا اظہار کر رہے ہیں، تاہم سوشل میڈیا پر پیپلز پارٹی کا میڈیا ونگ یہ مہم چلانے میں مصروف ہے کہ آج یومِ سیاہ ہے اور جنرل ضیاء الحق پر شدید تنقید کی جارہی ہے۔

دوسری جانب حکمراں سیاسی جماعت تحریکِ انصاف سمیت پیپلز پارٹی کے دیگر مخالفین بھی میدان میں آچکے ہیں جو ذوالفقار علی بھٹو کے دورپر تنقید کر رہے ہیں اور انہیں ملک کو دولخت کرنے کا ذمہ دار قرار دے رہے ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ ضیاء الحق اور ذوالفقار علی بھٹو دو الگ الگ شخصیات نہیں بلکہ دو الگ الگ مکاتبِ فکر کو ظاہر کر رہے ہیں۔ اگر آپ کسی ایک کی حمایت کریں تو دوسرے کو ملک کا غدار قرار دینا لازمی ہوجائے گا۔ 

سب سے بڑا یومِ سیاہ 

سب سے بڑا یومِ سیاہ 4 اپریل ہے کیونکہ اس روز ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دے دی گئی۔ غور کریں تو 5 جولائی سے لے کر 4 اپریل تک کل 9 ماہ بنتے ہیں جن کے دوران سابق وزیرِ اعظم اقتدار اور زندگی دونوں سے محروم ہوئے۔

مملکتِ خداداد پاکستان آج بھی ذوالفقار علی بھٹو جیسا زیرک سیاسی رہنما تلاش کر رہی ہے جس نے سقوطِ ڈھاکہ کے بعد بھارت کے ہاتھوں گرفتار ہونے والے فوجی سپاہی زندہ واپس لے لیے اور اس کیلئے کسی سے بھیک بھی نہیں مانگی۔

سیاست شطرنج کی ایک ایسی بساط کا نام ہے جسے حقیقی معنوں میں سمجھنے والے افراد صدیوں بعد پیدا ہوتے ہیں اور ذوالفقار علی بھٹو انہی اہم شخصیات میں سے ایک تھا۔ 

Related Posts