خسارہ ہی خسارہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

ملکی معیشت مالیاتی خسارے کی بری خبر سنا رہی ہے، پی ٹی آئی نے لانگ مارچ ملتوی کرکے استعفوں کا اعلان کیا جبکہ حکمراں اتحادکے وزیرِ داخلہ رانا ثناء اللہ نے جمعرات کوطویل پریس کانفرنس میں عمران خان پر کڑی تنقید کی۔

کسی سکیورٹی ادارے کا بیانیہ ہو یا پاکستان سمیت کسی بھی ملک کی حکومت کا، اس میں راوی ہمیشہ چین ہی لکھتا ہوا ملتا ہے اور سفارتکار حضرات کوئی بھی منفی بات کہنے سے قبل دروغ برگردنِ راوی ضرور کہا کرتے ہیں۔

دروغ برگردنِ راوی کا مطلب ہے کہ اگر میں نے کچھ غلط کہا تو اس کا نقصان اس شخص کو ہوگا جس سے سن کر راقم الحروف نے کوئی سنی سنائی بات آپ تک پہنچائی، گویا سنی سنائی سنانے والا خود کو احتساب سے ماورا کرنے کیلئے اس لفظ کا استعمال کرتا ہے۔

آج سے 2 روز قبل یہ تشویشناک خبر سننے کو ملی کہ پاکستان کا مالیاتی خسارہ بڑھ کر 809 ارب تک جا پہنچا ہے۔ وزارتِ خزانہ کی ماہانہ اقتصادی آؤٹ لک رپورٹ میں بڑے انکشافات سامنے آئے۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ مہنگائی کی شرح 25.5 فیصد ہے۔

رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ ایف بی آر کا ٹیکس ریونیو اور زرعی قرضے بڑھ گئے ہیں، حکومت جو اقدامات اٹھا رہی ہے، ان سے مہنگائی کم ہوگی۔ گزشتہ سال جولائی سے ستمبر کے دوران مالیاتی خسارہ 438 ارب تھا جو بہت بڑھ گیا ہے۔

گزشتہ برس کے 5 ارب 30 کروڑ ڈالر کے مقابلے میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 2 ارب 80 کروڑ ڈالر کو جا پہنچا ہے جبکہ بیرونِ ملک سے ترسیلاتِ زر میں 8.6 فیصد کمی ہوئی۔

کل 4ماہ میں بیرونِ ملک سے 9 ارب 90 کروڑ ڈالر کی ترسیلات گزشتہ سال 10 ارب 80 کروڑ ڈالر کے مقابلے میں کم رہیں جبکہ موجودہ وفاقی حکومت نے کم و بیش 7ماہ قبل اقتدار سنبھالا تھا۔

امجد اسلام امجد کے اشعار ہیں:

حسابِ عمر کا اتنا سا گوشوارا ہے

تمہیں نکال کے دیکھا تو سب خسارا ہے

عجب اصول ہیں اس کاروبارِ دُنیا کے
کسی کا قرض کسی اور نے اُتارا ہے

قارئین کو یاد ہوگا کہ جب سابق وزیر اعظم عمران خان حکمران تھے تو تجارتی خسارہ سرپلس پر پہنچ جانے کے باوجود عوام کو مہنگائی کا سامنا تھا۔ جب مہنگائی کے بارے میں سوال کیا جاتا تو جواب ملتا تھا کہ مہنگائی تو عالمی سطح پر بڑھ رہی ہے۔

پی ڈی ایم رہنماؤں نے عمران خان حکومت پر شدید تنقید کی اور کہا کہ یہ لوگ بیرونی دنیا کی مہنگائی کا رونا رو کر معیشت کے حقیقی چیلنجز کو عوام سے چھپا رہے ہیں تاہم جب انہی پی ڈی ایم رہنماؤں کی حکومت آئی تو وہی عالمی مہنگائی کا رونا رویا گیا۔

سوال یہ ہے کہ عوام الناس اس خسارے ہی خسارے کے بوجھ سے کب نکلیں گے جس کے نتیجے میں ملک بھر میں مہنگائی مسلسل عروج پر ہے اور مزید عروج حاصل کرتی جارہی ہے۔ کیا عوام کو مہنگائی کی چکی میں پیسنے والے حکمران کبھی مسائل کا حقیقی حل بھی تلاش کریں گے؟

Related Posts